ستائیس 27 وفاقی وزراء، 4 وزرائے مملکت، 5 مشیر اور 14 معاونین خصوصی کے ساتھ عمران خان کی حکومت، عوام کے ٹیکسوں پر عیش کررہی ہے، کنٹینر پر چڑھ کر کہتے تھے کہ جب ہم حکومت بنائیں گے تو 20 سے زیادہ کابینہ نہیں رکھیں گے، لیکن خان صاحب کی کابینہ کا حال دیکھ کر لگتا ہے کہ خان صاحب کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جارہی ہیں۔
۔ ”اندھا بانٹے ریوڑی اپنے اپنوں کو“ یہ مثال بچپن سے سنتے آئے ہیں، لیکن اب جب تحریک انصاف کی کابینہ کی طرف سے مچائی جانے والی تباہی اور مایوس کن کارکردگی دیکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ باتیں کروڑوں کی کرکے دُکان پکوڑوں کی لگاکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے 43 ماہ کی کارکردگی کی المناک داستان اپنی مثال آپ ہے، ہر وزیر چور، مافیا باز، کرپشن سے بھرپور، بلیک میلر، بدمعاشی، گالیاں، بدتمیزی، کردار کشی، اور الزام تراشی جیسے گھناؤنے کام کرتا نظر آتا ہے، تمام وزارتیں جو پچھلی حکومتوں میں ترقی پذیر تھیں کرپشن سے پاک عوام کی خدمت کرتی دکھائی دیتی تھیں آج وہی وزارتیں صرف کرپشن کرتی، تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھرتی کرنے اور غلط اعداد شمار سے عوام کو دھوکہ دینے میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔
آئیے پاکستان تحریک انصاف کے وزراء اور وزارتوں کا تھوڑا جائزہ لیتے ہیں کہ کسطرح کچھ نہ کرکے یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو شاباشی بانٹتے، تعریفیں کرتے اور احمقوں کی جنت میں ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہتے ہیں ـ حال ہی میں تحریک انصاف کی حکومت نے کی پرفارمنس انڈیکیٹر کے تحت اپنی کابینہ کی تعریفوں کے پُل باندھ کر فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ پوزیشن حاصل کرنے والے وزراء کو مبارک باد دی جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق بنا، عوام اس بات پر حیران اور پریشان ہے کہ کیسے نئے پاکستان کے بانی نے 118 ارب روپے سے زائد کی کرپشن کرنے والے وزیر مراد سعید اور اَن سے منسلک وزارت کو اول درجہ دے دیا، قوم اب تک وہ المناک سانحہ بھی نہیں بھولی تھی کہ جس میں اسی کامیاب ترین وزیر مراد سعید کے والد جو کہ آسٹریلیا اسٹوڈنٹ ویزے پر جاتے ہوئے پکڑے گئے اور ذلت کیساتھ وطن واپس بھیجے گئے اَسی کے بیٹے کو نااہلی پر اول درجہ قرار دے کر قوم کا مذاق بنایا گیا. اس چھوٹے قد والے وزیر کو پہلا نمبر اپنی کارکردگی کیوجہ سے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی پر اپنی زبان کی گندگی نکالنے کیوجہ سے دیا گیا ہے، کیونکہ تحریک انصاف میں جسکی جتنی زبان گندی اُسکا اتنا ہی بڑا عہدہ۔
دوسرے نمبر پر وزراء کو مات دینے والے جناب پی ٹی آئی کے آئن اسٹائن اسد عمر ہیں جو اپوزیشن میں تھے تو اپنے نمبرز اور تحقیق سے حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگاتے پھرتے تھے، لیکن جیسے ہی حکومت بنی 8 ماہ کے اندر ہی انھیں حکومت سے باہر کردیا گیا، اسد عمر نے وطن کیلئے کوئی خاطر خواہ کارنامہ انجام نہیں دیا ہاں البتہ وزیرخزانہ بن کر کاروباری دوستوں کو ڈھائی سو ارب روپے ۔ GIDC ٹیکس معاف کیا جس فیصلہ کو SC نے ڈاکا قرار دے کر باہر پھینک دیا اور حکومت شرمندہ ہوئی ـ
تیسرے نمبر پر آنے والی وزارت غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کی تقسیم والی تھی جسکی پوری کی پوری بنیاد، روح اور اساس بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے، اگر اس وزارت سے بینظیر کارڈ، نظریہ خدمت انسانیت، صدر زرداری کا خواب نکال دیا جائے تو اندر کچھ نہیں بچتا۔
چوتھے نمبر پر آنے والے وزیر شفقت محمود ہیں، جن کا نام سُن کر ہی عمران خان کے شفاف انتخاب اور میرٹ کی دھجیاں بکھر گئیں، سلیبس میں انتہا پسندی اور اشتعال انگیز سبق کا شامل کرنا بھی اسی حکومت کا کارنامہ ہے ـ نہ کوئی خاطر خواہ پالیسی، نہ کوئی تعلیمی نظام میں بہتری اور مزید یہ کہ کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن میں اسی وزیر کیوجہ سے جگ ہنسائی ہوئی، سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنے اور عوام نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
عمران خان نے جس وزارت کو 43 مہینے میں پانچویں نمبر کا درجہ دیا ہے وہ وزارت برائے انسانی حقوق ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ شیریں مزاری کی کارکردگی کا اگر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی وزارت کے دوران زبردستی ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے جیسے واقعات میں بتدریج اضافہ، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو توڑا گیا، جسکا دل چاہا اُس نے توہین رسالت کا الزام لگاکر کسی بھی اقلیتی افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، آمر کے بدترین ادوار میں بھی اتنی میڈیا پر پابندیاں نہیں لگیں جتنی تحریک انصاف کے دور میں لگی ہیں، صحافیوں کے گھروں پر حملہ آور مار پیٹ، ینگ ڈاکٹروں پر کریک ڈاؤن، اپوزیشن جماعتوں کے گھروں پر چھاپے، چار دیواری کی بے حرمتی، ریپ کے کیسسز میں اضافہ یہی نہیں بلکہ اب تک 8279 گمشدہ افراد کے طور پر ریکارڈ میں درج ہیں جن پر وزیر کو بات کرنے کی فرصت نہیں ہاں البتہ موصوفہ عمران خان کا ہر وقت سوشل میڈیا پر دفاع کرتے ہوئے نظر ضرور آتی ہیں۔
چھٹے نمبر پر آنے والی وزارت برائے انڈسٹری اینڈ پروڈکشن کو چلانے والے جناب عزت مآب خسرو بختیار ہیں جن پر اپنے اثاثوں سے زیادہ اثابے رکھنے کے مقدمات درج، کئی غیر قانونی ہزاروں کنال زمینیں، رحیم یار خان میں اتحاد شوگر ملز، دو اسٹار شوگر ملز اور شہتاج شوگر ملز، پانچ پاور جنریشن کمپنیاں، چار کیپٹل انویسٹمنٹ کمپنیاں اور ایک ایتھنول پروسیسنگ پلانٹ، یہ وہ سب اثاثے جن کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں درج نہیں، اسکے علاوہ تحریک انصاف کے حکومت سنبھالتے ہی گندم کی قیمت آسمانوں سے باتیں کرنے لگی ساتھ ہی گندم کا بحران پاکستانیوں پر منڈلانے لگا بعد میں پتہ چلا کہ اس بحران اور قیمتوں کے اضافے کے پیچھے خسرو بختیار اور ان کے سگے بھائی تھے، پھر بھی صادق و آمین وزیر اعظم نے نوٹس نہیں لیا اور ایک وزارت سے ہٹاکر دوسری اور پھر تیسری دیتے رہے اور موصوف مزے کرتے رہے، اس 43 ماہ کے دوران خسرو نے سرکاری خرچہ پر 189 سے زائد دورے کئیے ہیں۔
ساتویں نمبر پر آنے والے وزیر قومی سلامتی ڈویژن کے بذات خود عمران خان ہیں، یہ احساس کمتری کا شکار ہیں جو اپنی ہی تعریف کرتے ہیں، قومی سلامتی تو دور کی بات ہے یہاں ہر دن بلوچستان میں لڑائی، سی پیک جیسے پراجیکٹ پر حملہ، ، چینی انجنئیر کا قتل، سندھ کے حالات، پنجاب میں ہنگامی صورتحال، افغانستان کا خاردار تاریں کاٹنا، انڈیا کے متواتر سرحدوں پر حملے، عمران خان کا خود بھارت کے جاسوس کلبھوشن یادیو کا وکیل بننا، کشمیر کا بھارت سے سودا کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنی قومی سلامتی سے کتنے سنجیدہ ہیں ٍ۔
تحریک انصاف کے ہر ایک وزراء کی اپنی ایک داستان اور کہانی ہے، بیشتر کا سفر پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور آل پاکستان مسلم لیگ سے ہوتا ہوا تحریک انصاف میں جاری ہے، یہ وہ گندے انڈے ہیں جن کی زبانیں بتاتی ہیں کہ یہ لوگ سیاست نہیں بلکہ ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں ـ ان تمام وزراء کو عوام کے دکھ درد، غریب کی تکلیف، کسان کے آنسو نظر نہیں آتے، اگر کچھ نظر آتا ہے تو بس عمران خان کی جھوٹی تعریف کرنا، اپوزیشن پر کیچڑ اچھالنا اور پاکستان کیلئے رسوائی کا باعث بننا۔
یہاں عوام کس بات کا رونا نہ روئے، گیس کی کمی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، ڈالر اوپر، معیشت تباہ، جی ڈی پی منفی، امپورٹ بڑھنا، ایکسپورٹ کم ہونا، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل میں پاکستان کی تنزلی کرپشن میں اضافہ ، گرین پاسپورٹ کی دنیا بھر میں بے عزتی اور عالمی برادری میں پاکستان کو تنہا چھوڑا جانا، اسکے باوجود ہمارے مُلک کے وزیر اعظم عمران خان اپنی ہر تقریر میں صرف میں، میرا، میرے، مجھے اور میں جیسے الفاظوں کا سمندر بہاتے ہیں اور عوام کی تمام تر تکالیف پر کوئی عملی اقدامات اٹھانے کے بجائے کہتے پھرتے ہیں کہ” اپنے گھبرانا نہیں ہے۔”
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیلئے آخر میں ایک شعر عرض کرتا چلوں کہ۔
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے”
“انجام گلستاں اب کیا ہوگا
The contributor, Khaleek Kohistani, is a socio-political activist from Karachi. He holds a Bachelors in Public Administration.
Reach out to him @khalikkohistani.