غیر سیاسی، غیر سرکاری اور بنا منافع کے عالمی سطح پر کام کرنے والی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا کا سب سے بڑا اینٹی کرپشن نیٹ ورک ہے جو جرمنی سے اپنا آپریشن سرانجام دیتا ہے. پاکستان اور 90 دوسرے ممالک میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا ادارہ اپنا کام سرانجام دے رہا ہے ـ تمام ممالک میں سالانہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کرپشن کے حوالہ سے کرپشن انڈیکس جاری کرتی ہے جو بتاتا ہے کہ کونسی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن اور کون سی گراوٹ کا شکار ہورہی ہیں۔
موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جس کا پہلے دن سے منشور کرپشن سے پاک پاکستان اور اپوزیشن جماعتوں پر کرپشن کے گھناؤنے الزامات لگانا رہا ہے، آج جب برسر اقتدار آئی ہے تو کرپشن کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ چکی ہے، تحریک انصاف کی ہر الیکشن مہم اور تقاریر میں موجودہ وزیراعظم عمران خان آصف علی زرداری، نواز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں پر کرپشن کا الزام لگاتے تھکتے نہیں تھے، ہماری حکومت کے شروع کے 90 دن میں ہم باہر سوئس بینکوں میں پڑا 200 ارب پاکستان واپس لائیں گے، لیکن حقیقت یہ کہ نہ وہ 200 ارب واپس آئے، اور نہ ہی ادارے کرپشن سے محفوظ رہے۔
حکومت میں آنے سے پہلے صبح، دوپہر، شام نہیں بلکہ دن میں ہزار مرتبہ عمران خان کہتے تھے کہ پاکستان میں ہر دن 15 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، عمران خان کے حساب سے پی ٹی آئی کے پچھلے 43 ماہ کے 1290 دنوں میں ( 1290 ×150،0000) کھربوں روپے بنتے ہیں جس کو عمران خان نے ملکی خزانے میں لازماً ڈلوائے ہوں گے یہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کو قرضے بھی دیا ہوگا ـ عمران خان کے حکومت سنبھالنے سے پہلے مُلکی قرضہ 25 ہزار ارب روپے تھا، بقول ان کے مشیروں کے عمران خان نے 35 ہزار ارب واپس کردیا اس کے باوجود بدقسمتی دیکھیں کہ آج بھی قوم پر 45 ہزار ارب کا قرضہ موجود ہے. جبکہ 1290 دنوں کے اربوں روپوں سے بننے والے کھربوں روپے سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہوچکے ہیں۔
کرپشن پرسیپشن انڈیکس کی درجہ بندی کے مطابق 2018 تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو کرپشن میں پاکستان کا نمبر 117 تھا، ایک سال گزرنے کے بعد 2019 عمران خان نیازی کی حکومت میں ترقی کرتا 120 ویں نمبر پر جا پہنچا، پھر اُس کے اگلے سال مزید ترقی کرتا 2020 میں 124 ویں نمبر پر، پھر 2021 میں 140 پر جا پہنچا ـ اسکے باوجود عمران نیازی اور دیگر وزراء کی زبان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو کرپٹ اور اپوزیشن کے لیڈران کو کرپٹ ترین سیاست دان کہتے نہیں تھکتی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے جب تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی اور کرپشن کے راز عوام پر کھولے تو عمران خان کے وزراء نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ساکھ پر کئی سوالات کھڑے کردیئے، پی ٹی آئی کے خلاف ساز ش کرنے کا الزام بھی دیا گیا جبکہ یہ وہی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ہے جسکی عمران نیازی مثالیں دیتے، تعریفیں کرتے اور تسبیح پڑھتے رہتے تھے. یہی نہیں بلکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنے تمام سوشل میڈیا پیجز کے پہلے صفحات پر عمران خان نیازی کے بیانات شائع کیئے ہوئے ہیں ـ جب آئینہ دکھایا تو اپنا ہی چہرہ بھیانک لگا۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر صاحب نے بھی استعفی دیا کیونکہ وہ اپنی ہی حکومت میں ہونے والی کرپشن کو کنٹرول نہیں کر پارہے تھے یہ پہلو انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے کہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں پاکستان کی درجہ بندی میں پورے 16 نمبرتنزلی سامنے آئی ہے۔
یہ بات بھی اب صیغہ راز نہیں رہی کہ عمران خان صاحب کی زیر قیادت، سابقہ حکمرانوں کے خلاف کرپشن کا کوئی ایک مقدمہ بھی عدالتوں میں ثابت نہیں ہوسکا۔ حکومتی وزراء مشیران ہاتھوں میں دستاویزات لہرا لہرا کے پریس کانفرنسیز اور میڈیا ٹاکس کرتے ہوئے دیکھائی دیئے ہیں مگر عدالتوں میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرپاتے ، جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت میں کرپشن کے میگا سکینڈلز میڈیا کی زینت بنتے نظر آتے ہیں کبھی گندم سکینڈل، کبھی چینی سکینڈل، کبھی ادویات ، کبھی پٹرول کا بحران اور من مانی قیمتیں ، کھاد، ایل پی جی، پی آر ٹی، مالم جبہ، بنی گالہ، 116 ارب کی مراد سعید کی وزارت میں کرپشن اور رنگ روڈ سکینڈلز مگر ان سکینڈلز پر نہ تو کوئی نیب، نہ کوئی ایف آئی اے اور نہ ہی سپریم کورٹ کوئی ایکشن لیتی نظر آتی ہے. گندم و چینی سکینڈلز پر خود وزیراعظم عمران خان صاحب نے کمیٹیاں تشکیل دیں مگر صرف باتوں تک ۔بحیثیت اک عام پاکستانی ہم سب کے لئے پریشان کن بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی جو کرپشن فری پاکستان بنانے کا نعرہ لیکر مسنداقتدار چڑھائی گئی تھی اسی کی حکومت میں Corruption Perceptions Index کے مطابق پاکستان میں کرپشن کے لیول میں بے انتہا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ عمران خان صاحب کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے اور انکو سب اچھا کی رپورٹ دینے والے وزراء اور مشیران کو اپنے قریبی حلقہ سے ہٹاکر کہیں دور پھینک دیں ۔ محترم عمران خان صاحب ابھی بھی وقت سنبھل جائیں، عوام تبدیلی کی حقیقت دیکھ چکی، تبدیلی کا سونامی برداشت کرچکی اب بس برداشت سے باہر ہے اور یہ برداشت کسی بڑے انقلاب کیطرف مُلک کو دھکیل رہی ہے جسکا عملی مظاہرہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ہونے والے مارچ میں دنیا کودکھائی دے گا۔
The contributor, Khaleek Kohistani, is a socio-political activist from Karachi. He holds a Bachelors in Public Administration.
Reach out to him @khalikkohistani.