اُس سردی پر لرزتے بے گھر،بے کوٹ و کمبل لوگوں کی خیال جو سردی سے با ہمت ہو کے لڑ رہے ہیں آتا ہوگا۔لکڑیوں سے بنائی گئی گھر کی چھت کمزور ہے،بارش ہو تو پانی کے قطروں کی دریا بہہ جاتی ہے اور برف باری میں سردی کا طوفان اُمڑ آتا ہے۔
سحر کی خواب سے جاگے بچے،جوان،بوڑھے کیا اُمید رکھتے ہوں گے،اُُن کے دلوں کا خواب کیا ہوگا،ارادے کیسے ہوں گے؟
آج کے بادلوں کی بارش پھر ہمارے گھر کو تر کر لے گا،ہمارے نیند،چھین،سکون چین لے گا۔کچن کے بچے کچے راشنوں کو خراب کرے گا۔۔۔
یہ خیالات اس لیے کیونکہ نہ ہمارے جوان نوکریوں پہ لگے ہیں نہ بوڑھے پنشنز پہ اور نہ ہی عورتیں فنڈز وصول کرتے ہیں۔
اور یہ خیالات اس لیے کیونکہ نئے راشن خریدنے کے لیے شہر جا پائیں گے،بارش گاؤں سے شہر نہیں بلکہ گاؤں سے دوسرے گاؤں کا راستہ بھی بند کر لے گا۔بارش اگر مرض دے تو اسپتال کہاں ملے گا؟
نوکری کے لیے تعلیم چائیے ہوتا ہے،ہمارے ہاں نہ اسکول کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی کسی ایسے استاد کی جو کسی درخت کے نیچے ہمارے بچوں،بچیوں کو علم سے فیض یاب کرے۔
ہمارے جوان صرف جنگل سے لکڑی ہی کاٹ کر بیچ سکتے ہیں لیکن آج کل یہ بھی ممنوع ہے۔سرکار کہتا ہے یہ (ڈیپورسٹیشن) ہے اور اس سے جنگلات کم ہوتے ہیں اور ویسے ہی ہمارے ہاں مکمل جنگلات 4 فیصد سے زیادہ نہیں۔
وہ بوڑھا شخص سوچتے سوچتے آبدیدہ ہوتا جا رہا تھا اور آنکھوں کے آنسو اُس کی سرزمین کو تر کر رہے تھے۔۔۔
جاتے جاتے کہیں رک گیا اور لرزتے لب اور اشکبار آنکھوں سے کہہ رہا تھا کہ یہ سالہ سرکار کو ممنوع کرنا بہت آتا ہے لیکن بحال کرنا،حقوق دینا،سہولیات اور روزگار دینا کیوں نہیں آتا؟
پاجی سرکار سرکار کر رہا تھا کہ اچانک اُن کے ذہن میں ایک خیال آیا اور کہنے لگا کہ یہ جو ہمارے حکمران بنے ہوئے پھر رہے ہیں،پُر آسائش گھروں میں زندگی کے موجیں لے رہے ہیں،پُر سہولیات ہیں۔
کیا اُنہیں ہمارے تھوڑا سا بھی خیال نہیں آتا؟
پھر فرمایا اگر خیال ہوتا تو ہم ایسے نہیں ہوتے۔
The contributor, Yousuf Baloch, specialises in the discussion of human rights offenses worldwide.
Reach out to him @YousufBaluch1.