وطنِ عزیز میں ہر کچھ عرصے کے بعد اداروں کی عزت کا شور پڑ جاتا ہے اور اس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے کہ کوئی ایسا قانون متعارف کروایا جائے جس کے تحت عوام سے اداروں کی عزت کروائی جا سکے اور عزت نہ کرنے والوں کے ساتھ ایسی سختی سے نپٹا جائے کہ دوسرے عبرت حاصل کریں اور اپنی زبان پر قفل ڈال لیں۔
گزشتہ دنوں بھی اسی سوچ کے تحت پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) میں کچھ ترامیم کی گئیں اور یہ ترامیم نافذ کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر کے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے نافذ کیا گیا۔
پیکا ترمیمی ایکٹ کے آرٹیکل 20 کے تحت ایف آئی اے کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے خلاف اداروں یا کسی شخص کی توہین یا ہتک عزت کی ایف آئی آر کٹوائی جاتی ہے تو اس شخص کو الزام ثابت ہونے سے پہلے گرفتار کیا جا سکے گا اور چھ ماہ میں عدالت فیصلہ کرے گی کہ الزام صحیح ہے یا غلط اور پھر اسے دو لاکھ جرمانہ یا پانچ سال قید کی سزا یا دونوں سزائیں ایک ساتھ سنائی جا سکتی ہیں۔
آئین کا آرٹیکل 19 آزادی رائے اور آزادی صحافت کا حق دیتے ہوئے کچھ پابندیاں بھی عائد کرتا ہے اور ان پابندیوں کے ہوتے ہوئے مجھے تو مزید کسی پیکا قانون یا پیکا ترمیمی آرڈیننس کی ضرورت نظر نہیں آتی۔
آرٹیکل 19 کہتا ہے کہ “اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعہ عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق ہوگا اور پریس کی آزادی ہوگی۔”
شاید آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور صحافت اور عوام کی رائے وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں عوام کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے اور پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں جہاں حکومتوں کے ذاتی مفادات عوامی توقعات و خواہشات اور ضروریات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں وہاں یہ آئینہ بہت تکلیف دیتا ہے اور شاید حکومتوں میں کہیں کوئی ضمیر نام کی چیز ہوتی ہو جس کی خلش سے بچنے کے لیے اظہارِ رائے پر مزید قدغنوں کی ضرورت پڑتی چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف اداروں کو اقتدار میں اختیار کی حاجت ہوتی ہے اور عدالتیں کسی ڈنڈے کے دباؤ تلے بلیک لا ڈکشنری ڈھونڈ لاتی ہیں تو پھر تنقید سے بچنے کا ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ اظہارِ رائے اور آزادی صحافت پر پابندی لگا دی جائے۔
بنیادی طور پر آرٹیکل 19 میں ہی اظہار تقریر و تحریر کی آزادی کو اتنی بندشوں میں قید کر دیا گیا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مزید کسی قانون کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ چاہے وہ ن لیگ کے دور میں بنایا گیا پیکا ہو یا اس حکومت کا پیکا ترمیمی آرڈیننس ہو۔
آخر تحریر و تقریر کی آزادی کیوں اتنی تکلیف دہ بن جاتی ہے کوئی بھی حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا آمریت وہ ان پابندیوں کا اطلاق ضروری سمجھتی ہے؟
اگرچہ سوشل میڈیا پر زبان و بیان کے ایسے مظاہرے معاشرتی انحطاط کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ ہماری اخلاقی قدروں اور اخلاقی رویوں پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں لیکن اس کے باوجود پیکا ترمیمی آرڈیننس بلکہ پیکا قانون کی ہی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
بلکہ عوامی نمائندوں، سول سوسائٹی، اساتذہ اور علماء کو سامنے آ کر عوام کی اخلاقی تربیت کرنا ہو گی اور سوشل میڈیا صارف کو بتانا ہو گا کہ آزادی رائے کا یہ مطلب نہیں کہ فریقِ مخالف کو گالی نکالیں، مخالف سیاسی قائدین اور جرنیلوں کی تصاویر پر میمز بنائیں اور نعرے لگا کر لائیکس سمیٹیں بلکہ آزادی رائے شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے دلیل سے جواب دینے کا نام ہے اور عوامی ایشوز کو ہائی لائٹ کرتے ہوئے حکومتِ وقت کو اس کی ذمہ داریاں بتانا آزادی رائے ہے۔
لیکن ایک ایسا معاشرہ جہاں لیڈر خود غرض ،مذہبی رہنما مصلحت بین ،دانشور خوشامدی ہو جائیں تو عوام بھی بےحسی کی ایسی ہی چادر اوڑھ کر ہر طرح کی اخلاقیات اور تہذیب و شائستگی سے بےپرواہ ہو جاتی ہے۔
یہی بےپرواہی ہمیں سوشل میڈیا پر زبان و بیان کے استعمال میں نظر آتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر زبان و بیان کے استعمال میں بےباکی، بدتمیزی، فحش گوئی اور گالم گلوچ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے اور مخالف نظریات اور سوچ کے ساتھ ساتھ مخالف شخصیات کے لیے بدزبانی و بدگوئی اور گالم گلوچ نے دلیل کی اہمیت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ جہاں دلیل ختم ہو فریق مخالف کو ماں بہن کی گالی دے کر لاجواب کر دو۔ شریف ہو گا تو چپ کر جائے گا ورنہ دوسری صورت میں اس سے بدتر گالی سے جواب دے کر اپنی فحش گوئی کی مہارت کا پرچم بلند کر لے گا اور اس طرح گالیوں کے مقابلے سے گندگی کا ایک ڈھیر ہر سو بکھرتا چلا جائے گا۔
زبان بندی کے کسی بھی نئے قانون کو نافذ کرنے سے پہلے اگر تاریخ کا جائزہ لے لیا جائے تو یہ بھی بے جا نہ ہو گا۔
اگر تحریر و تقریر کی پابندی اور ریاست مخالف بیانات پر سزائیں مؤثر ہوتیں تو انگریز تحریکِ آزادی کو کچل کر آج بھی حاکم ہوتے۔ اگر صحافت پر قدغنیں اور جبری مثبت رپورٹنگ کارگر ہوتی تو مشرقی پاکستان آج بنگلہ دیش نہ ہوتا۔ اگر سیاسی مخالفین اور نظریاتی مخالف صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو سزاؤں سے بددل کیا جا سکتا تو آج زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے لگانے والا کوئی نہ ہوتا۔ اگر سزاؤں، کردار کشی اور منفی پروپیگنڈہ سے کسی کو مائنس کیا جا سکتا ہوتا تو نوازشریف تیسری دفعہ وزیراعظم نہ بنتے۔
یہ تو وطنِ عزیز کی مختصر سی تاریخ ہے اور چند کرداروں کا ذکر ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اقوامِ عالم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو اظہارِ رائے کی پابندی اور صحافت پر قدغن کسی ہونی کو نہ تو روک سکی ہیں اور نہ ہی کسی اقتدار کو دوام بخشنے میں کارگر رہی ہیں۔
عقل تو یہی کہتی ہے کہ اگر ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں، عدل و انصاف کے ممبر پر بیٹھے ججز کے بولنے کی بجائے ان کے فیصلے بولیں اور حکومت عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے تو نہ تو کسی پیکا قانون کی ضرورت پڑے اور نہ ہی اس میں مزید ترامیم کر کے اسے ظالمانہ کرنے کی حاجت ہو۔
لیکن اس سادہ سے اصول کو سمجھنے کے لیے کوئی تیار بھی تو ہو۔
The contributor, Naddiyya Athar, is a Master of Urdu Literature with a Bachelors in Education. She has experience teaching at schools and colleges across Pakistan. Being keenly fascinated by the ever-changing scope of politics in the country, Naddiyya is an avid bibliophile.
Reach out to her @naddiyyaathar.