براعظم افریقہ کی جنوب مشرقی ریاست سوڈان میں فوجی آمر جنرل عبدالفاتح عبدالرحمان برحان تختہِ اقتدار پر براجمان ہیں۔فاتح صاحب سوڈان جیسا قدرتی معدنیات سے مالامال ملک کو فتح تو کر چکے مگر سوڈانیوں کی غربت کی لکیر کو فتح کرنے سے ناکام ہیں۔
فتح صاحب کی سوڈان انتہائی غربت کے شکار ہیں۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ سوڈان میں آئل،کاٹن،ٹیکسٹائل،پٹرول،چینی،سیمنٹ کی کارخانے چلتے ہیں،سالانہ بلین ڈالرز برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔
یہ پٹرول کی پیداوار،سیمنٹ میں مشقت کی کمائی جاتی کہاں ہے وہ ہم نہیں جانتے مگر گتّے پر دس والا کاپی کا ایک پیج ٹانگ پہ چھپاکے لکھنے والے کو صرف اتنا پتہ ہے کہ سوڈان کی غربت کی لکیر آخری پتھر پہ دہائیاں دے رہا ہے۔۔کہ ہماری غربت چیالیس اعشیاریہ پانچ فیصد سے تو کم کی جائی۔۔ہم کاشت کاری کی مد میں دیش کو 39 فیصد جی ڈی پی دیتے ہیں اور کارخانوں کی مد میں دیش کی بجٹ کو2.6 میں ہم نے پہنچایا۔
افریقہ کی سائے تلے نائیجریا نامی ایک ریاست غربت کی مرض میں انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں داخل ہے۔نائیجریا کی جیب میں چالیس قسم کے معدنیات موجود ہیں،جن میں سونا بھی ہے سلور،آئرن،ماربل اور لیتیھم بھی۔۔۔
نائیجریا میں کرپشن کچھ خاص نہیں،بس ورلڈ انڈیکس نے عالمی سازش کے تحت دنیا کے 180 ممالک کی فہرست میں سے 154 نمبر سونپ دیا گیا ہے اور نائیجریا کی 90 ملین غربت کی مرض میں مبتلا ہیں اور یہ اعداد ملک کی 45 فیصد آبادی کو کور کرتی ہے۔۔
ہے تو ترقی پسند کانگریس کی حکومت اور چلا رہے ہیں محمد بوہاری۔۔۔ترقی پسند کانگریس کی ترقی کہاں چل رہا ہے میرے علم میں نہیں مگر نائیجریا کی بیروزگاری 50 فیصد لوگوں کو اپنی گرفت میں کس کے پکڑ چکی ہے۔۔
براعظم افریقہ کی سیر کے بعد اب تھوڑی بات جنوبی ایشیا میں ہندوستان،چین اور ایران کے ہمسایہ ملک،بحرِ عرب کے ساحلی قربت کے حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صوبہ بلوچستان کی بات نہ ہو،داستان ادھوری رہ جاتی ہے۔
فرض کریں ریکوڈک کی نئی معاہدہ بلوچستان کو 27 منافعہ دے بھی سینگاپور بنائے یا سینگاپور میں لے جائے تو بلوچستان کی عام ریڑی والے کی معاشی زندگی میں کیا فرق لائے گا؟
فرض کریں حکومتِ بلوچستان کی دعوی کو مانتے ہیں کہ اس منصوبے سے آٹھ ہزار مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا۔حلانکہ ریکوڈک کی معاہدے پہلی نہیں ہے بلکہ ابھی کے لیے نیا ہے۔۔
مان لیتے ہیں قدوس صاحب سفارشی کلچر کا خاتمہ کرتے ہوئے،جعلی ڈومیسائل کو مسترد کرتے ہوئے نوکرے دے بھی تو یقین جانیں یہ آٹھ ہزار کی نوکریاں مقامی لوگوں کے کرائیٹریا کے پہنچ سے دور ہی ہوتے ہیں،یہ بےروزگار بندے ریکوڈک میں نوکری کی تعلیمی اصولوں میں اترنے کا مجازی ہوتے ہیں۔
ریکوڈک چاہتا ہے ماسٹر کی ڈگری اور چاغی میں انٹر کی ڈگری ہی ملتی ہے۔
ریکوڈک کی معاہدے خفیہ ہے لیکن ہم جمہوری سکے کی دوسری رخ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
اچھا بلوچستان میں حکومت کو اپوزیشن کہہ دیں یا اپوزیشن کو حکومت۔۔۔قدوس صاحب کی حکومت میں قومی مفادات کی کھڑکی میں جانکھنے والے اب ریکوڈک کو استحصالی کہتے ہیں۔۔لوٹ ماری کہتے ہیں۔۔۔
پیر کو اتحادی تھے۔۔منگل کو اپوزیشن میں آ گئے اور بدھ کو خادمِ بلوچستان کے دائیں جانب کے سوپے پہ لمبی سانسیں لیتے رہے۔۔
اب ہوٹل میں چائے کی محفل میں دیوانِ سیاست کے عظیم مفکر،سیاستدان کبھی بلوچستان کو سوڈان کی بلاک میں باندھنے کی کوشش کرتے اور کبھی نائیجریا کی مثالوں سے ہوٹل کے باقی سیاستدانوں کو دلیلِ منطق پیش فرما رہے تھے۔
اب اسی نظارے کو ہوٹل کے بائیں جانب مشہور،سندھ بلوچستان لذیذ قلفی کے مشتاق ریڑھی والا دیکھ بھی رہے تھے اور سُن بھی۔۔جمعہ کی دوسری آذان کے بعد مشتاق صاحب اپنے مخصوص انداز سے ریڑھی کو مسجد کے دیوال پہ لگا کے،نماز کی نیت سے قضاِ حاجت سے فارغ ہونے کے بعد،وضو کے لیے آستینوں کو اوپر ہی کر رہے تھے کہ ان کی منہ سے بلا جھجک آواز نکلی کہ “تیری ترقی کی ایسی کی تیسی”
The contributor, Yousuf Baloch, specialises in the discussion of human rights violations worldwide.
Reach out to him @YousufBaluch1.