This op-ed was contributed by Ihsaan Taj.
وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان “آر ٹی ایس سسٹم” کے آس پاس کافی طاقتور ہو چکے تھے اس لئے اپنے منظور نظر افسروں کو زرخیز عہدوں پر تعینات کرنے کا حکم بھی دینے لگے۔ انہی دنوں سیکرٹریٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے انتظامی تجربے سے نابلد گریڈ انیس کے عباس خان پشاور میں کمشنر افغان ریفیوجز بھی لگا دیئے گئے۔ موصوف کی واحد قابلیت اور میرٹ یا تو اعظم خان اور ارباب شہزاد کی قربت تھی یا دن رات سوشل میڈیا پر عمران خان اور پی ٹی آئی کا کمپین چلاتے ہوئے سیاستدانوں کو گالیاں دینا۔ چند ماہ پہلے سیکرٹری ایسٹبلشمنٹ کے تحفظات کے باوجود شدید دباؤ کی وجہ سے انہیں گریڈ بیس میں پروموشن دی گئی لیکن وہ تا حال پروبیشن پر ہیں۔ (حال ہی میں جنسی ہراسانی کیس کے ایک فیصلے میں عباس خان کے حوالے سے انتہائی سخت ریمارکس بھی آئے ہیں)۔
اگر کرپشن خواتین کی جنسی ہراسانی میرٹ کی بد ترین پامالی اور اخلاق باختگی کسی ایک ہی شخص میں دیکھنے کا شوق ہو تو موصوف سے “بہتر “آدمی آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ نیب پشاور بد ترین کرپشن کی تحقیقات کر رہا ھے. ایک جنسی ہراسانی کے کیس میں عباس خان کے دست راست اور محکمہ افغان ریفیوجز کمشنریٹ کے بدنام زمانہ چیف فنانس افسر عطاء اللہ نوکری سے ڈسمس ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی ہو چکے ہیں۔ پشاور ھائی کورٹ میں کرپشن اقرباء پروری اور بد انتظامی کے کیسز الگ سے زیر سماعت ہیں۔ ایف آئی اے بھی بعض معاملات کی چھان بین کر رہی ھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جنسی ہراسانی کیس فیصلے میں کمشنر افغان ریفیوجز عباس خان کو بھی مجرم گردانا گیا ھے۔
یہ وہی عباس خان ہیں جس نے وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد کے بھتیجے سے لےکر اس کے نوکروں گن مینوں عزیزوں اور رشتہ داروں کی تنخواہیں اپنے ذمے لےکر GIZ پراجیکٹ سے دینے لگا اسی طرح اپنے “خاص خدمت گاروں” کو ان سے پندرہ اور بیس سال سینیئرز پر فوقیت دے کر کئی کئی سٹپ پروموشن دیئے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا بلکہ سرکاری بنگلوں کی الاٹمنٹ تنخواہوں میں اچانک کئی گنا اضافہ اور ترقی کے لئے سنیارٹی اور اہلیت کی بجائے معیار “کچھ اور” معاملات تھے۔
اسی محکمے کے چیف فنانس افسر عطاء اللہ عباس خان کے بہت سے معاملات میں رازدان تھے۔ اسی عطاء اللہ کا تعلق بنوں کے ایک غریب گھرانے سے تھا اور وہ محکمہ جنگلات میں کلرک تھے جو کچھ عرصہ بعد محکمہ افغان ریفیوجز میں اکاونٹنٹ بن کر آئے اور یہاں سے اس کے دن پھرنا شروع ہوئے کیونکہ یو این فنڈڈ پراجیکٹس کا بھاری بھر کم بجٹ اس کے ھاتھ آیا۔ یہ غریب شخص اچانک کروڑوں اربوں میں کھیلنے لگا تو اپنی اصلیت بھی دکھانے لگا۔
چونکہ مختلف پراجیکٹس سے خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی وابستہ ھے اس لئے پیسے کی آمد نے اس کم ظرف آدمی کی جنسی درندگی کو بھی بڑھاوا دینا شروع کیا۔ تنخواہوں میں اضافہ سرکاری گاڑیوں کا تیل خرچہ اور ٹی اے ڈی اے وغیرہ وہ ھتیار تھے جس کے ذریعے عطاء اللہ “شکار ” پر نکل جاتا۔ محکمے کے تمام ملازمین کو ان معاملات کا علم تھا لیکن اپنی شرافت یا بے بسی کے سبب سب خاموش تھے۔
دو ھزار اٹھارہ کے آس پاس عباس خان کمشنر بن کر آئے تو چیف فنانس افسر مالی اور جنسی حوالوں سے مزید سرکش ہو گئے کیونکہ “ھم مزاج” ہونے کے سبب اب اسے کمشنر افغان ریفیوجز عباس خان کی مکمل آشیر باد بھی حاصل ہو گئی تھی۔ اسی محکمے کے ایک پراجیکٹ سے وابستہ دو انتہائی مظبوط اور باکردار خواتین پر اب اس کی نظر تھی۔ آس لئے اپنے روایتی داو پیچ کے ذریعے ان پر ڈورے ڈالنا شروع کئے۔ مسئلہ یہاں تک بڑھا کہ دونوں خواتین نے اپنے تین مرد کولیگز (جن سے بھائیوں جیسا رشتہ تھا) کو اپنی مشکلات اور عطاء اللہ کی خباثتوں سے آگاہ کیا تو سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ محکمے کے سربراہ کمشنر افغان ریفیوجز کو تحریری شکل میں شکایت کی جائے۔
کمشنر کو یہ خط چودہ دسمبر 2020کو کو بحوالہ نمبر (1354 ) لکھا گیا لیکن طرفہ تماشا ملاحظہ ہو کہ ملزم کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے الٹا درخواست دہندگان میں سے ایک خاتون اور اس کے دوسرے کولیگ کو نہ صرف نوکری سے برطرف کر دیا بحوالہ نمبر 11891 بلکہ اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر سرکاری گھروں کو بھی خالی کرنے تحریری حکم جاری کیا. جبکہ تیسرے کو لیگ اور سینیئر افسر کو کہیں اور ٹراسفر کر دیا. کچھ دنوں بعد دوسری خاتون اور اس کے کولیگ کو انتہائی دور افتادہ علاقوں میں ٹراسفر کر دیا.بحوالہ نمبر 12950-58۔
اس زیادتی کے خلاف موخر الذکر دونوں افسروں نے فوری طور پر پشاور ھائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اگلے دن عزت ماب چیف جسٹس پشاور ھائی کورٹ نے کمشنر افغان ریفیوجز کی نہ صرف اچھی خاصی کلاس لی بلکہ ان کی آرڈرز کو بھی معطل کر دیا۔ اور ھاں یاد آیا ان دونوں خواتین نے کمشنر سے مایوس ہو کر اومبڈسمن یعنی جنسی ہراسانی کورٹ سے رجوع کیا۔ جس کے بعد کمشنر افغان ریفیوجز عباس خان نے اپنے “ھم مزاج ” ساتھی کی خاطر پانچوں درخواست دہندگان افسروں (جن میں دو خواتین اور ان کے تین مرد کولیگز شامل تھے) پر خدا کی زمین تنگ کر دی۔
اس دوران متاثرہ فریق نے مدد کےلئے یو این ایچ سی آر کو بھی درخواست دی جو یو این ایچ سی آر نے فوری طور پر چیف کمشنر افغان ریفیوجز اسلام آباد کو مزید کارروائی کےلئے بھیج دی۔
اب یہ ڈرامہ ملا حظہ ہو کہ یہ درخواست 18 دسمبر کو یو این ایچ سی آر کو موصول ہوئی جو اسی دن یعنی 18دسمبر ھی کو چیف کمشنر افغان ریفیوجز کو بھیج دی گئی اور عین اسی دن چیف کمشنر (جن کے ایک قریبی عزیز سیف علی خان کو غیر قانونی طور پر ایک اہم عہدے پر محکمہ افغان ریفیوجز کمشنریٹ میں تعینات کیا گیا ہے جن کے بارے میں بعض کہانیاں ایسی ہیں جنہیں بیان کرنا مناسب نہیں) نے یہ خط کمشنر افغان ریفیوجز پشاور کو انکوائری کے لئے بھیج دیا۔
لیکن عباس خان کی “کارکردگی” ملا حظہ ہو کہ اسی 18دسمبر کو نہ صرف ایک دن میں تمام انکوائری “مکمل” بھی ہو گئی بلکہ درخواست دہندگان سے رابطہ کرنا تو درکنار انہیں پتہ تک بھی نہیں چلا جبکہ ملزم عطاء اللہ مکمل طور پر “بے گناہ ” بھی ڈکلیئر ہوئے۔ مزید طرفہ تماشا دیکھیں کہ انکوائری رپورٹ اسی عطاء اللہ کے دفتر سے واپس بھیجا گیا جس کے خلاف انکوائری ہوئی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
تا ہم اومبڈز مین میں جنسی ہراسانی کا کیس چلتا رہا. اس دوران دونوں خواتین نے ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد اور ثبوت جنسی ہراسانی کی عدالت کو فراہم کئے۔ جس پر 28 مارچ 2022 کو تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس کے تحت محکمہ افغان ریفیوجز کمشنریٹ پشاور کے چیف فنانس افسر عطاء اللہ اور ایک ڈائریکٹر کو فوری طور پر نوکری سے ڈسمس کرنے کے ساتھ پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔ جبکہ کمشنر افغان ریفیوجز عباس خان کی کارکردگی اور نا اھلی پر بھی انتہائی سخت ریمارکس آئے ہیں۔ لیکن عباس خان کی ایک اور “کارکردگی ” ملا حظہ ہو کہ ڈسمس کئے گئے چیف فنانس افسر عطاء اللہ اور پراجیکٹ ڈائریکٹر ابھی تک نہ صرف اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ “حکم نامے” بھی جاری کر رھے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ فیصلہ آنے کے چند گھنٹے بعد عباس خان کے کہنے پر مزید درخواست دہندگان کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔
گویا مجرموں کی بجائے متاثرین کو سزا دی گئی۔ کیونکہ جس محکمے کا سربراہ عباس خان جیسا آدمی ہو وہاں ایسا ہی ہوتا ھے۔ تا ہم معزز پشاور ھائی کورٹ کے ساتھ ساتھ امبڈزمن عدالت سے بھی التماس ھے کہ اس معاملے کا فوری طور پر سخت نوٹس لیا جائے۔ کیونکہ ایک نا اھل اور مالی و اخلاقی مسائل کا شکار ایک افسر قانون اور ضابطے کے ساتھ ساتھ عدالتی فیصلوں کو ایک مذاق بنائے ہوئے ہیں۔
اگر سیکریٹری ایسٹبلشمنٹ اور سیکرٹری سیفران سول سروسز کی وقار اور کارکردگی سے آگاہ ہیں تو انہیں سوچنا چاہئے کہ یہ مسخرہ نما افسر سول سروسز کی بدنامی کا سبب بنتے ہوئے نظروں سے اوجھل کیوں رہا۔
عمران خان کی وہ حکومت بمع اعظم خان اور ارباب شہزاد فنا کی دہلیز پر کھڑے ہیں جو عباس خان جیسے وارداتیں کرنے والوں کے
لئے بہت سازگار تھی لیکن آنے والی حکومت سے توقع ہوگی کہ اس سلسلے میں شفاف اور تفصیلی انکوائری کرائے تا کہ پھر کسی کرپٹ کو اہم عہدے پر بٹھایا بھی نہ جائے۔ اور کسی جنسی درندے اور بد کار شخص کے ھاتھ طاقت بھی نہ آئے تا کہ کسی ماں بہن کی عزت اور آبرو پر ھاتھ ڈالنا اتنا آسان بھی ہو۔