عمران خان کو اقتدار پر مسلط ہوئے چند ماہ ہوئے تھے۔ سو دن گزر چکے تھے اور کارکردگی کے نام پر سوائے تقریروں اور انڈے کٹوں وچھوں کے کچھ نہ تھا۔ سو دن میں جس تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا وہ وعدہ فردا ہی ثابت ہوا تھا اور سوشل میڈیا پر مخالفین کی تنقید کا جواب دینا مشکل ہوتا جا رہا تھا کہ ایک صبح اچانک عمران خان کی ایک تصویر سامنے آ گئی۔ اس تصویر میں عمران خان نے جو قمیض پہن رکھی تھی اس کے دامن پر دو سوراخ تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ تصویر ہر طرف وائرل ہو گئی اور جہاں حامیانِ عمران خان’ عمران خان کی سادگی پر مر مٹے وہیں مخالفین نے طنز، مزاح اور نکتہ چینی کے ساتھ موریوں کو نئے نئے زاویوں سے دیکھا اور بیان کیا اور خوب مذاق اڑایا۔ عمران خان کی سادگی کو بیان کرتی یہ ایک تصویر ہی نہیں بلکہ عمران خان پھر یہ سٹنٹ اپنے پونے چار سال میں دکھاتے ہی رہے؛ کبھی ملازموں کے گھر سے کھانا آنے کی خبر آئی اور کبھی بیرون ملک دورے میں کپڑوں پر گرنے والی چائے کو لاپرواہی سے نظر انداز کیا گیا؛ کبھی اسلام آباد کے بازار میں پکوڑے چیک کرتے پائے گئے اور کبھی خود گاڑی ڈرائیو کرتے دکھایا گیا اور ان کے اندھے فالورز ملک کو درپیش ہر مسئلے کو پسِ پشت ڈال کر عمران خان کی مدح سرائی میں مشغول رہے. نہ کبھی ڈوبتی معیشت پر سوال کیا اور نہ کبھی انتظامی بےضابطگیوں کی وجہ پوچھی. نہ ایک کے بعد ایک سامنے آنے والے کرپشن کیسز پر کوئی اعتراض اٹھایا اور نہ ہی کبھی یہ پوچھا کہ کپتان صاحب ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں اور ان دو سو ارب ڈالرز کا کیا بنا جو آپ نے واپس لانے تھے۔
اپنے اقتدار کے پونے چار سال میں جب بھی عمران خان کو سنا یہی لگا جیسے ابھی بھی موصوف کنٹینر پر سوار ہیں اور یہ ہونا چاہیے وہ ہونا چاہیے کے ساتھ ساتھ مخالفین کو للکارتے ہی نظر آئے۔ کبھی اخلاقی بھاشن تو کبھی پند و نصائح کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بےروزگاری سے بدحال عوام کے لیے گھبرانا نہیں ہے کی طفل تسلیاں اور سکون تو صرف قبر میں ہے کی توجیحات۔
عمران خان کو اقتدار کیسے ملا اور وہ کس طرح کرسی پر مسلط ہوئے اگر اس پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو سمجھ آتی ہے کہ ایک ایسا شخص جو عوام کے ووٹ سے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہی نہیں ہوا اسے عوام کی فکر کیوں ہو گی؟ پھر جس کے ایسے اندھے فالوور ہوں جو اس کے ہر غلط کو صحیح اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے فوٹو شاپ کا ڈھیر لگا دیں؛ اسے ضرورت ہی کیا تھی اپنی ذات کے علاوہ کچھ سوچنے اور دیکھنے کی؟
عمران خان کی بحیثیت وزیراعظم پہلی تقریر سے آخری تقریر تک تمام تقاریر و خطابات دیکھ لیں تو سوائے “میں، میں، میں” کے کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اجتماعیت کیا ہوتی ہے؟ ٹیم ورک کسے کہتے ہیں اور کسی بھی کامیابی میں آپ کے اردگرد موجود تمام ساتھیوں کا کیا کردار ہوتا ہے؟ عمران خان کو اس کا ادراک کرتے کبھی نہیں دیکھا گیا؛ چاہے ذکر ورلڈ کپ جیتنے کا ہو یا شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کا، ذکر سیاسی جدوجہد کا ہو یا اس راہ میں آنے والی مشکلات کا؛ ان کی ہر بات میں، میرا، مجھ سے شروع ہوتی ہے اور میں میں پر ہی ختم ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انہیں کبھی عوام کے مسائل کے حل کی خواہش ہی نہ ہوئی بلکہ ایک انٹرویو میں جب خاتون نے ان کی توجہ مہنگائی سے خودکشی کرنے والوں کی طرف دلوائی تو انہوں نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ ایسی بےحسی ماضی میں نہ دیکھی گئی۔
سو دن میں تبدیلی کے دعویدار سے جب بھی عوام کے لیے ریلیف کا پوچھا گیا تو اس نے کبھی چھ ماہ بعد اور کبھی نئے سال کو تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے کر جان چھڑا لی؛ وہ چھ ماہ جو کبھی نہ آئے اور وہ نیا سال جو کبھی نہ چڑھا حتکہ عمران خان کے آخری دن آ گئے۔ اپنا اقتدار جاتا دیکھ کر بھی اس خود پسند کپتان کی میں میں ختم نہ ہوئی اور بالآخر ایک خطاب کرتے ہوئے اس نے کہہ بھی دیا کہ میں آلو ٹماٹر کی قیمتیں دیکھنے تو نہیں آیا تھا، میں تو قوم کا اخلاق سنوارنے آیا تھا۔ بھلا ہو اندھے گونگے بہرے فالورز کا کہ انہوں نے پوچھا نہیں کہ کپتان صاحب! اخلاق ہی سنوارنا تھا تو کہیں موٹیویشنل سپیکر لگ جاتے یا اسلامیات کے پروفیسر۔ حکمران سے تو عوام کو آٹے دال کے کم بھاؤ ہی چاہیے ہوتے ہیں۔
صرف عوامی مسائل کے حل کے لیے عمران خان کا یہ رویہ نہ تھا بلکہ سفارتی معاملات میں غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر پاکستان کے دوستوں کو ناراض کرنا اور سفارتی آداب کا خیال نہ کرنا بھی ان کا وطیرہ رہا۔
کشمیر کے معاملے میں جس بےحسی کا مظاہرہ انہوں نے کیا اس کا تذکرہ بھی بےجا نہ ہو گا۔ امریکہ سے واپسی پر ورلڈکپ جیتنے والی خوشی محسوس کرنے والے عمران خان یہ نہ بتا سکے کہ ان کی امریکہ یاترا کے کچھ ہی عرصے بعد بھارت نے کشمیر کو اپنے صوبے کا درجہ کیوں اور کیسے دے دیا؟ البتہ ہاتھ نچا نچا کر یہ کہتے ضرور پائے گئے کہ کیا کروں؟ کیا اب حملہ کر دوں؟ بھئی جب آپ کے فالورز زومبیز ہوں تو ایسی ڈھٹائی آ ہی جاتی ہے۔
عمران خان اور ان کے فالورز کو کبھی یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ حکمران کا ہینڈسم ہونا، کلر سمائل دینا، شلوار قمیض پہننا، پشاوری چپل میں سٹائل سے چلنا، ہاتھ میں تسبیح رکھنا، بغیر پرچی کے بولنا، انگلش پر دسترس رکھنا اور اپنے سوا ہر ایک کو کرپٹ، غدار، ملک دشمن اور کم عقل جاہل سمجھنا اہم اور ضروری نہیں ہوتا بلکہ حکمران کے پاس حکومتی امور، پالیسی سازی، انتظامی معاملات اور عوامی مسائل کے حل کا شعور ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حکمران ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہوتا ہے جو بیک وقت اندرونی و بیرونی معاملات کو بہترین انداز میں ڈیل کرتے ہوئے مناسب حل نکال سکے۔ لیکن جہاں اچھی تقریر کو ہی معراج سمجھ لیا جائے وہاں پھر انجام یہی ہوتا ہے جو عمران خان کا ہوا اور پھر لانے والے نہ آپ کے تقاریر میں دیئے طعنوں سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی دُہائیوں سے؛ نہ آپ کے فالورز کی آہ و بکا کام آتی اور نہ ہی کوئی سوشل میڈیا ٹرینڈ ہی آپ کو مقامِ عبرت بننے سے بچا سکتا ہے۔ بس پیچھے رہ جاتی ہے تو دو چپیڑوں کی گونج جو نہ جانے کب تک آپ کا پیچھا کرنے والی ہے۔
The contributor, Naddiyya Athar, has an M.A. in Urdu Literature and a B.Ed. She has experience teaching at schools and colleges across Pakistan. She specialises in the discussion of the ever-changing political landscape in Pakistan.
Reach out to her @naddiyyaathar.