گزشتہ روز پی ٹی آئی کی مین قیادت خاص طور پر لبرل متصور ہوتی شیریں مزاری’ مفتاح اسماعیل کے ایک بیان پر توہینِِ مذہب کا الزام لگاتی نظر آئیں۔ یہ کہنا بالکل غیر ضروری ہو گا کہ مفتاح نے توہینِ مذہب کی یا نہیں کیونکہ جو پی ٹی آئی کی نفسیات سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی سیاست الزام الزام اور صرف الزامات سے منور ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس نہ تو کوئی کارکردگی ہے، نہ کوئی بیانیہ اور نہ کوئی نظریہ ہی باقی بچا ہے۔ پونے چار سال کے اقتدار نے پی ٹی آئی کے ہر دعوے کے غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے۔ پی ٹی آئی اچھی طرح جانتی ہے کہ نہ تو وہ ن لیگ کی طرح اپنی کارکردگی بیان کر سکتے ہیں، نہ کوئی نظریہ باقی بچا ہے اور نہ ہی انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو الزامات لگائے تھے ان میں سے کوئی الزام ثابت ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر ان کے پاس کوئی بھی اتنا قابل معاشی ماہر نہیں ہے جو مفتاح اسماعیل کا مقابلہ کر سکے تو اس کا حل یہی تھا کہ مفتاح کے ایک مبنی بر حقیقت بیان کو لے کر توہین مذہب کا الزام لگا دیا جائے اور یہی انہوں نے کیا۔ اب افسوس تو ن لیگ سوشل میڈیا اور پارٹی قیادت پر ہوا کہ بجائے اس کے کہ مفتاح اسماعیل کے بیان کو لے کر پی ٹی آئی کے قول و فعل کے تضاد کو واضح کرتے وہ مفتاح اسماعیل کی الزام پسندی اور مذہب سے عقیدت کی صفائیاں دیتے نظر آئے اور یقینی طور پر اسے پی ٹی آئی کی کامیابی ہی کہا جائے گا۔
ن لیگ اپوزیشن میں تھی تو تب بھی ہروقت صفائیاں ہی دیتی رہتی تھی۔ اب حکومت میں ہیں تو تب بھی یہی حال ہے۔ عمران خان پہلے بھی آپ پر الزام لگاتا رہتا تھا اور اب بھی الزامات لگا رہا ہے۔ کبھی چور، کبھی کرپٹ، کبھی غدار اور کبھی توہینِ رسالت و مذہب کے الزامات اور سازشی تھیوری۔ آخر آپ اٹیکنگ پوزیشن کیوں نہیں لیتے؟ اب تو ن لیگی قیادت سے یہ سوال کرنا بھی بےمعنی لگنے لگا ہے کیونکہ اثر ان پر ذرا نہیں ہوتا۔ ویسے تو سیانے کہتے ہیں کہ الزام وہی لگاتا ہے جو کچھ کر نہیں سکتا؛ وہ مصور والی کہانی تو آپ نے سنی ہی ہو گی جس نے ایک بہترین شاہکار تصویر بنا کر شہر کے مین بازار کے چوراہے میں لگا دی تھی اور سب کو تصویر کے نقص نکالنے کی دعوت دی تھی اور ساری تصویر نشانات سے بھر گئی تھی۔۔۔
اب پی ٹی آئی کے پونے 4 سال دور سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے؛ کہ یہ صرف الزامات ہی لگا سکتے ہیں۔ پہلے اپوزیشن میں تھے تو الزام لگاتے تھے، پھر حکومت میں آئے تو الزامات لگاتے رہے حالانکہ حکومت میں آنے کے بعد ان کی وہی پوزیشن تھی جو مصور نے آخری حربے کے طور پر استعمال کی کہ تصویر میں جہاں جہاں کوئی خرابی ہے تو اسے درست کر دیں تو تصویر پر کوئی۔ نشان نہیں لگا اور وہ بےداغ رہی۔ اسی طرح پی ٹی آئی نہ تو کوئی الزام ثابت کر سکی اور نہ ہی جو جو خرابیاں انہیں نظر آتی تھیں ان میں کوئی بہتری لا سکی بلکہ اُلٹا ملک کو مزید خرابیوں کا شکار کر دیا۔ پونے چار سال پی ٹی آئی اقتدار کے جھولے میں جھولتی رہی اور حال یہ ہے کہ جب کسی خرابی، معاشی بدحالی یا عوامی مسائل پر سوال کیا جاتا تو آگے سے جواب ملتا کہ پچھلی حکومتوں کا قصور ہے۔ چلیں پچھلی حکومتوں کا قصور ہو گا لیکن آپ کوئی ایک خرابی تو دور کر کے دکھاتے؛ آخر سیم پیج کے بھاری بھرکم مینڈیٹ اور زعم کے ساتھ اقتدار پر مسلط تھے لیکن نکما پن، نالائقی اور نااہلی امڈ امڈ کر سامنے آتی رہی اوپر سے کرپشن کا تڑکہ بھی لگا رہا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ کرپشن کون کونسے شعبوں میں کی گئی؟
اور اب جب کہ اقتدار سے نکالا جا چکا ہے تو پھر الزامات تماشا شروع ہے۔ لیٹر گیٹ سے شروع ہونے والی سازش کہانی غداری سے ہوتی ہوئی توہینِ مذہب تک پہنچ چکی ہے۔ یہ پی ٹی آئی کا مخصوص ہتھکنڈا ہے کہ اتنے الزامات لگاؤ کہ مخالفین صفائیاں ہی دیتے رہیں اور ان کی اپنی بداعمالیوں اور ناقص کارکردگی کی طرف توجہ ہی نہ جائے اور وہ اپنے اس ہتھکنڈے میں ہمیشہ کامیاب بھی رہتے ہیں۔ آج مین سٹریم میڈیا کا کوئی پروگرام اٹھا کر دیکھ لیں اس پروگرام میں بات سازش، خط اور ان الزامات پر ہی ہوتی ہے جو پی ٹی آئی اور عمران خان لگاتے ہیں۔ کوئی ان سے ان کی چار سال کی کارکردگی کے بارے میں سوال کرتا نظر نہیں آتا۔ جبکہ پوچھنا تو یہ بنتا ہے کہ 21ارب کے ریزروز، 6.1 جی پی اے، 4فیصد انفلیشن، 106 کے ڈالر، آئی ایم ایف فری اور 65 روپے پیٹرول کے ساتھ ملنے والے ملک کے ساتھ انہوں نے ایسا کیا کیا کہ چار سال میں گروتھ ریٹ 1.6، انفلیشن 12فیصد، ڈالر 184، پیٹرول 160، ریزروز میں صرف سعودی عرب، قطر اور دبئی سے ملنے والا قرض اور آئی ایم ایف کی لٹکتی تلوار ہی آنے والی حکومت کا مقدر بنی ہے۔ گورنس کے معاملات اور اداروں میں جو تباہی پھیری گئی وہ الگ سے ایک مضمون ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال اٹھائے کون؟ نو منتخب اتحادی حکومت کو ملک کی معاشی صورتحال بہتر کرنے کی فکر ہے جبکہ تماش بین ہجوم اور ریٹنگ کے پیچھے سرپٹ دوڑتے میڈیا کے لیے ان سنجیدہ سوالات میں چسکہ فروشی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ تو بس پھر الزامات کا جو تھیٹر اور سازش سازش کی جو دھن پی ٹی آئی نے تیار کر دی ہے اس کی لے پر سب ناچتے جائیں اور عوام کو مزید انتشار، ہیجان اور پراگندگی کا شکار کرتے جائیں۔
The contributor, Naddiyya Athar, has an M.A. in Urdu Literature and a B.Ed. She has experience teaching at schools and colleges across Pakistan. She specialises in the discussion of the ever-changing political landscape in Pakistan.
Reach out to her @naddiyyaathar.
Very nice and close to reality