وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور وزیراعلی پنجاب میاں حمزہ شہباز جب اپوزیشن لیڈر کے طور پر اسمبلیوں میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور انکے مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف نیب، ایف آئی اے کی مدد سے چند کیسز انکے خلاف دائر کیے جو ابھی تک عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
ان چند کیسز میں سے آج میں آپ کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی اصل حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ بھی ٹی وی و اخباری خبروں سے نکل کر سچ کو جان سکیں۔
جب فروری 2020 میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں یکدم بےتحاشہ اضافہ ہوا اور مارکیٹ میں چینی شارٹ ہوگئی تو حکومت نے ایک “شوگر انکوائری کمیشن” بنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت 10 مارچ 2020 کو ایک “شوگر انکوائری کمیشن” تشکیل دیا۔ شوگر انکوائری کمیشن میں اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء، انسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے گوہر نفیس، انٹیلیجنس بیورو کے احمد کمال، ایس ای سی پی کے بلال رسول، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماجد حسین چوہدری، ایف بی آر ڈائریکٹریٹ آف انٹیلیجنس اینڈ کمیشن کے بشیر اللہ خان اور بعد ازاں آئی ایس آئی کے بھی ایک نمائندے کو شامل کیا گیا۔
شوگر انکوائری کمیشن کی تشکیل کے بعد اس کمیشن نے آگے نو مختلف ٹیمیں تشکیل دیں جس نے پاکستان میں موجود 88 شوگر ملز مالکان کے خلاف تحقیقات کرنی تھیں۔ ان نو ٹیموں میں سے ایک ٹیم کی سربراہی سجاد باجوہ کر رہے تھے جنہوں نے خسرو بختیار کی شوگر ملوں کی تحقیقات کرنی تھیں۔ جب سجاد باجوہ نے خسرو بختیار اور اس کے بھائی کی شوگر ملوں کی تحقیقات کرنا شروع کیں تو اس وقت کے وفاقی سیکرٹری داخلہ اور مرزا شہزاد اکبر نے ملی بھگت کیساتھ سجاد باجوہ کے اوپر الزامات لگانا شروع کر دیے کہ ہمیں انٹیلیجنس بیورو نے آپکے خلاف ثبوت فراہم کیے ہیں کہ آپ خسرو بختیار اور انکے بھائی کو شوگر انکوائری کے متعلق خفیہ معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ جس کا ثبوت آج تک شہزاد اکبر اور انٹیلیجنس بیورو نہیں دے سکی، چنانچہ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے ایف آئی اے کے سجاد باجوہ کو چارج شیٹ پیش کی اور الزامات کا جواب دینے کا کہا گیا لیکن سجاد باجوہ وفاقی سیکرٹری داخلہ کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنے بیان میں مرزا شہزاد اکبر کے متعلق کہا کہ وہ خسرو بختیار کو بچانا چاہتے ہیں۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے سجاد باجوہ کو 22 اپریل کو “شوگر انکوائری” کے دوران ہی معطل کر دیا اور بعد ازاں نوکری سے برطرف کر دیا۔
شوگر انکوائری کمیشن نے پہلے 4 ہفتوں میں تمام تحقیقات مکمل کرنی تھیں لیکن جب حکومت کو اس بات کا علم ہوا کہ ابھی تک تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں تو حکومت نے کمیشن کو پہلے 16 مئی تک اور پھر بعد میں 4 دن کی مزید مہلت دے کر 20 مئی 2020 تک تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا۔ جب تحقیقات مکمل ہوگئیں تو اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء اور مرزا شہزاد اکبر نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور 346 صفحات پر مشتمل رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی۔ وزیراعظم عمران خان نے “شوگر انکوائری کمیشن” کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا حکم دیا اور جب رپورٹ منظر عام پر آئی تو معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین، اسکے بعد وفاقی وزیر خسرو بختیار اور اس کے بھائی اور تیسرے نمبر پر عمران خان کی حکومت کے اتحادی مونس الٰہی کی شوگر ملوں نے اٹھایا۔
چنانچہ 7 جون کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور بعد ازاں 23 جون 2020 کو وفاقی کابینہ نے “شوگر انکوائری رپورٹ” پر کاروائی کرنے کی منظوری دی۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر مرزا شہزاد اکبر نے گورنر اسٹیٹ بینک، مسابقتی کمیشن اور تین صوبوں کو خطوط لکھے، اس کے علاوہ ایف بی آر کو بھی خط لکھا گیا کہ وہ بےنامی ٹرانزیکشنز کی تحقیقات کرے اور ذمہ داران کا تعین کرے۔
چنانچہ حکومت نے ایک دفعہ پھر ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد زون ڈاکٹر معین مسعود کی سربراہی میں 11 رکنی کمیٹی تشکیل دی جو جعلی طور پر چینی افغانستان برآمد کرنے اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کریگی۔ اس کمیٹی نے تینوں صوبوں میں قائم ایف آئی اے کے دفاتر کو تمام ریکارڈ بھیجا اور کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں کاروائی کرنے کا حکم دیا۔
چنانچہ مونس الٰہی، خسرو بختیار، شہباز شریف اور جہانگیر ترین کی شوگر ملوں کا تمام ریکارڈ اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے لاہور ڈاکٹر رضوان کے پاس آگیا۔ ڈی جی ایف آئی اے لاہور ڈاکٹر رضوان نے خسرو بختیار اور مونس الٰہی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ شہباز شریف، جہانگیر ترین اور انکے خاندان کے افراد کے خلاف کاروائی کا آغاز کر دیا۔
چنانچہ ایف آئی اے نے 14 نومبر 2020 کو 5:45 منٹ پر “شوگر انکوائری کمیشن” کی رپورٹ کے چھ ماہ بعد جہانگیر خان ترین اور علی ترین پر 2013/14 کے دوران جے کے فارمنگ سسٹم لمیٹڈ کمپنی کے شیئر دھوکہ دہی اور فراڈ سے خریدنے کے الزام میں 4 ارب 35 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 406،420،109 (دھوکہ دہی و بے ایمانی، بد دیانتی، اعانت جرم) اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے سیکشن 3/4 کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
اور اسی روز 5:45 منٹ پر دوسری ایف آئی آر شہباز شریف اور ان کے بیٹوں پر سنہ 2008 سے 2018 کے دوران 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت پاکستان پریوینشن آف اینٹی کرپشن ایکٹ 1947 کے سیکشن 5 (2) (عوامی نمائندے کا مجرمانہ طرزِ عمل) پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 419، 420، 467، 468، 471 (جعل سازی، دھوکہ دہی و بے ایمانی) اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
یاد رہے! شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد جہانگیر ترین اور انکے بیٹے علی ترین جون 2020 میں روس سے آنے والے طیارے میں بیٹھ کر لندن روانہ ہوگئے تھے اور یہ ایف آئی آر انکے لندن روانہ ہونے کے بعد درج کی گئی ہے۔ جہانگیر ترین اپنے بیٹے کے ہمراہ ایف آئی اے کی جانب سے ایف آئی آر درج ہونے کے بعد لندن سے واپس پاکستان آگئے اور کم و بیش 100 پیشیاں بھگتیں۔ المختصر! ایف آئی اے نے اپنے تینوں مقدمات میں جہانگیر ترین اور انکے بیٹے علی ترین کی عبوری ضمانتوں میں جواب جمع کروا دیا کہ ہم جہانگیر ترین اور انکے بیٹے علی ترین کو کسی کیس میں گرفتار نہیں کریں گے، اگر کوئی کاروائی ادارے کی طرف سے عمل میں لائی گئی تو متاثرہ فریقین اور عدالت کو اس کے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔ چنانچہ مئی اور جون 2021 میں ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے اس بیان کو عدالت نے اپنے ریکارڈ کا حصہ بنا لیا اور ترین فیملی نے تینوں کیسوں میں اپنی ضمانتیں واپس لے لی اور یہ کیس ختم ہوگیا۔
ااب دوسری ایف آئی آر شہباز شریف اور اسکی فیملی کے خلاف تھی، جب یہ ایف آئی آر درج ہوئی تو میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیل میں تھے۔ ایف آئی اے حکام نے 17 اور 18 دسمبر 2020 کو میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے بیان ریکارڈ تو کر لیے تھے لیکن گرفتاری نہیں ڈالی تھی کیونکہ ایف آئی اے کا خیال تھا کہ اگر عدالتیں میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانتیں منظور کرتی ہیں تو ہم کچھ دن کے بعد انکو شامل تفتیش کرنے کے لیے سمن جاری کریں گے اور اس کیس میں گرفتاری ڈال دیں گے۔ جب میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز لاہور ہائیکورٹ سے ضمانتیں منظور ہونے کے بعد رہا ہوئے تو کچھ دنوں کے بعد ایف آئی اے لاہور نے انکو سمن جاری کر دیا۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے سے قبل بینکنگ کورٹ سے عبوری ضمانتیں کروا لیں جو آج تک چلتی آ رہی ہیں۔ اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے لاہور ڈاکٹر رضوان نے جنوری 2022 میں منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف و حمزہ شہباز سمیت دیگر 17 لوگوں کے خلاف 64 صفحات پر مشتمل 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان پیش کیا اور یہ چالان ایف آئی اے کی تاریخ کا سب سے لمبا چالان تھا۔ یاد رہے! ایف آئی اے نے جو ایف آئی آر درج کی تھی وہ 25 ارب روپے کی تھی اور جو چالان پیش کیا وہ 16 ارب روپے کا تھا، یعنی ڈاکٹر رضوان نے اپنے چالان میں ہی 9 ارب روپے غائب کر دیے۔ ڈاکٹر رضوان مرحوم نے اپنے چالان میں میاں شہباز، میاں حمزہ، سلمان شہباز و دیگر کے اوپر لگے چارجز 419, 420, 468، 471 کو ختم کر دیا کیونکہ ان کے ثبوت نہیں تھے۔ ان دفعات کے ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز ودیگرز نے کوئی سرکاری رقم کی خرد برد نہیں کی، کوئی کرپشن نہیں کی، کوئی جعلی کاغذات ادارے کو جمع نہیں کروائے۔ یاد رہے! یہ چالان عدالت میں اس وقت پیش ہوا جب عمران خان وزیراعظم اور شہزاد اکبر مشیراحتساب تھے۔
اب عدم ثبوت کی بناء پر ڈاکٹر رضوان مرحوم اور سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر نے یہ چال چلی چونکہ چالان میں سارے اہم چارجز ختم ہوگئے ہیں اور ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ہے لہذا اس چالان میں 100 کے قریب گواہان کو نامزد کر دیا جائے تاکہ یہ کیس لمبا چلے۔ اس کیس میں ایف آئی اے کے 100 میں سے 64 گواہوں نے ان 28 اکاؤنٹس میں ساڑھے 6 کروڑ روپے جمع کروائے ہیں۔ اگر ہم 16 ارب روپے میں سے ساڑھے 6 کروڑ روپے نکال دیں تو پیچھے جو رقم رہ جاتی ہے وہ 15 ارب، 93 کروڑ، 50 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔ جس کے خلاف اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے لاہور ڈاکٹر رضوان مرحوم عدالت میں ثبوت جمع نہ کروا سکے اور اس رقم کے متعلق ڈاکٹر رضوان کی طرف سے پیش کیے جانے والا چالان مکمل خاموش ہے کیونکہ ڈاکٹر رضوان اور شہزاد اکبر کے پاس ثبوت نہیں تھے۔ سب سے اہم بات جب ایف آئی اے نے ان 64 افراد کے بیانات قلمبند کرکے چالان کیساتھ پیش کیے تو کسی ایک بندے نے بھی نہیں کہا کہ یہ سرکاری ٹھیکے کا پیسہ ہے، یہ کرپشن کا پیسہ ہے وغیرہ وغیرہ بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے ان اکاؤنٹس میں پیسے بھیجے ہیں کیونکہ ہم رمضان شوگر مل و دیگر کے سپلائرز ہیں اور ہم مارکیٹ کے لوگ ہیں لہذا یہ ایک پرائیویٹ کاروبار ہے کوئی سرکاری سطح پر کرپشن یا منی لانڈرنگ نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایف آئی اے کے پاس اس پورے کیس میں صرف 65 ملین روپے کی ٹرانزیکشنز کے ثبوت ہیں اور جن 64 گواہوں نے اپنے بیانات ایف آئی اے کو ریکارڈ کروائے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم مارکیٹ کے لوگ ہیں اور یہ ہمارا پرائیویٹ کاروبار ہے۔ ایف آئی اے کے پاس اس وقت باقی ساڑھے 15 ارب روپے ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ موجود نہیں ہے اور جو 100 میں سے 36 گواہ باقی رہتے تھے انکا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ عمومی طور پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو اس کیس میں سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا ہے کہ جن گواہان کے منت ترلے انہوں نے کرنے تھے کہ خدا کے لیے! ہمارے حق میں گواہی دے آؤ، وہ گواہان ایف آئی اے نے خود تیار کرکے اور انکے بیانات قلمبند کرکے شہباز شریف اور اسکی فیملی کو بڑی مشکل سے بچا لیا ہے اور ان 64 افراد کی گواہی میاں شہباز شریف اور انکے خاندان کے حق میں جائے گی۔
اس چالان میں ایف آئی اے نے میاں شہباز شریف اور انکے خاندان کی شوگر ملوں کے 28 بینک اکاؤنٹس کی نشاندہی کی۔ یہ بینک اکاؤنٹس رمضان شوگر مل کے مقصود چپڑاسی، کلرک، اسٹور کیپر اور کیشئیر سمیت 10 ملازمین کے نام پر کھولے گئے تھے اور انہی اکاؤنٹس کے ذریعے شہباز شریف و حمزہ شہباز کی شوگر ملوں کا سٹاف مارکیٹ کے لوگوں کے ساتھ لین دین اور ملازمین کی تنخواہیں جاری کرتا تھا۔
آج کل مقصود چپڑاسی کا ذکر عام ہے، ایف آئی اے کے مطابق مقصود چپڑاسی کے نام پر رمضان شوگر مل کے فنانس ڈیپارٹمنٹ نے 5 اکاؤنٹس کھولے۔ پہلا اکاؤنٹ 13 مئی 2010 کو مسلم ٹاؤن میں مقصود اینڈ کمپنی کے نام سے کھولا گیا، دوسرا اکاؤنٹ بھی مقصود اینڈ کمپنی کے نام سے 2015 میں چنیوٹ میں کھولا گیا، تیسرا اکاؤنٹ 30 جون 2017 کو مقصود اینڈ کمپنی کے نام پر کھولا گیا، 2 اپریل 2015 میں مقصود احمد نے اپنے ذاتی نام کیساتھ اکاؤنٹ کھلوایا، 25 جنوری 2017 کو چنیوٹ میں مقصود اینڈ کمپنی کے نام پر سیلری اکاؤنٹ کھولا گیا۔ ایف آئی اے کے مطابق مجموعی طور پر مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹس میں 4 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایف آئی اے کے پاس مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹس میں ظاہر کیے گئے 4 ارب روپے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہیں کیونکہ ایف آئی اے کے پاس جو دستاویزات ہیں اور جو چالان جمع کروایا گیا ہے اس میں بھی مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹس میں ظاہر کیے گئے 4 ارب روپے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ موجود نہیں ہے۔ اگر بالفرض اگر ہم ایک منٹ کے لیے مان جائیں کہ مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹس میں 4 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں تو ان ٹرانزیکشنز کو ثابت کرنے کے لیے ایف آئی اے کو ان لوگوں کی بطورِ گواہ ضرورت ہوگی جنہوں نے مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹس میں پیسے منتقل کیے اور نکلوائے لیکن بدقسمتی کیساتھ مقصود چپڑاسی ہر ایک کی زبان پر ضرور ہے لیکن حقیقت میں ایف آئی اے کے پاس مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹس میں آئے ہوئے 4 ارب روپے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں، یہ صرف زبانی کلامی باتیں ہیں۔
جب عمران خان کو پتہ چلا کہ ایف آئی اے نے شہباز شریف اور انکے خاندان کے افراد کے خلاف چالان عدالت میں جمع کروا دیا ہے اور اس چالان میں ساری اہم دفعات ختم کر دی ہیں اور مقصود چپڑاسی سمیت دیگر لوگوں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت اور گواہان موجود نہیں ہیں تو انہوں نے اس سے اگلے دن 23 جنوری 2022 کو مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر، ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی اور ڈی جی ایف آئی اے لاہور ڈاکٹر رضوان کو اپنے دفتر میں بلا کر خوب گالیاں دیں اور کہتے رہے کہ میں نے تمہارے ذمے ایک کام لگایا تھا تم وہ بھی نہیں کرسکے۔ عمران خان نے شہزاد اکبر سے مخاطب ہو کر کہا کہ شہزاد! تم نے لندن میں بھی شریف خاندان کے خلاف ہمیں کیس ہروایا اور یہاں بھی منی لانڈرنگ کیس میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکے لہذا تم اس عہدے کے لائق نہیں ہو، تم نے ہمارے احتساب کے بیانیے کو ناکافی نقصان پہنچایا ہے۔ پھر اگلے روز 24 جنوری 2022 کو وزیراعظم عمران خان نے مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر سے استعفی لے لیا۔ آپ اس ٹائمنگ پر غور کریں کہ ایف آئی اے نے 22 جنوری 2022 کو عدالت میں چالان پیش کیا اور ٹھیک دو دن بعد 24 جنوری 2022 کو مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر کو انکے عہدے سے ہٹا دیا۔
اب عمران خان بہت زیادہ پریشان ہوگئے کہ مقصود چپڑاسی کے خلاف بھی ہم 4 ارب روپیہ ثابت نہیں کرسکے، 100 گواہ بھی پورے نہیں ہو رہے، چالان میں ساری اہم دفعات بھی ختم ہوگئی ہیں، اب کیا کیا جائے؟ چنانچہ عمران خان نے اگلے روز 25 جنوری 2022 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور ان پر پریشر ڈالنے کی کوشش کی کہ آپ شہباز شریف اور اسکے خاندان کے چند افراد کو عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلوا دیں، کیونکہ مجھ سے اب ڈیلور بھی نہیں ہو رہا، اگر یہ ان کیسوں میں بری ہو جاتے ہیں تو ہمارا احتساب کا بیانیہ ختم ہو جائے گا، جب شہباز شریف اور اس کے خاندان کے افراد کو سزا ہو جائے گی تو یہ پارٹی بکھر جائے گی اور خصوصاً پنجاب میں میں انکی پارٹی پر قبضہ کر لوں گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ میں آپکو کچھ دن تک سوچ کر بتاؤں گا۔ اب اگلے روز 26 جنوری 2022 کو عمران خان نے آرمی چیف کو دانہ ڈالنے کی کوشش کی اور فوج سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر مصدق عباسی کو نیا مشیر احتساب نامزد کر دیا تاکہ آرمی چیف یہ سمجھے کہ اب احتساب کا ادارہ فوج کے پاس آگیا ہے۔ جب کچھ دنوں کے بعد وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ملاقات سے پہلے آرمی چیف خفیہ طور پر شہباز شریف اور انکے خاندان کے خلاف عدالتوں میں چلنے والے اور خصوصاً منی لانڈرنگ کیس کے متعلق معلومات حاصل کر چکے تھے۔ جب چند دن کے بعد عمران خان نے دوبارہ آرمی چیف سے ملاقات کی اور پھر وہی بات دہرائی تو آرمی چیف نے کہا کہ آپ کرپشن اور احتساب کے بیانیے کو چھوڑیں اور اپنی کارکردگی پر توجہ دیں اور لوگوں کو ریلیف فراہم کریں۔ اسی دن کے بعد آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان مزید حالات کشیدہ ہوتے گئے جسکا اقرار فواد چوہدری اور عمران خان اپنے بیانات میں کر چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے مجھے اپنی کارکردگی بہتر کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کہا ہے۔
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت سوشل میڈیا پر اور عوام میں اس کیس کو کیوں نہیں اچھے طریقے سے پہنچا سکی، اسکی صرف ایک وجہ ہے کہ تعلقات اور پیسے کی بیس پر نااہل اور تھرڈ کلاس لوگوں کو عہدے بانٹنا جسکا ذمہ دار میں مسلم لیگ ن کی قیادت کو ٹھہراتا ہوں۔ میں مریم نواز شریف صاحبہ اور حمزہ شہباز شریف کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے ان جھوٹے کیسز میں بری ہو بھی گئے تو آپ کی بات کوئی بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہوگا کیونکہ قوم پھر یہ بات کہے گی کہ آپ حکومت میں ہمارے لیے نہیں بلکہ اپنے کیسز ختم کروانے کے لیے آئے تھے۔ اس لیے مخالفین کے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے اچھے، محنتی کارکنان کو آگے لیکر آئیں اور سوشل میڈیا ٹیم کی صف بندی کریں تاکہ آپ بھی اپنا مقدمہ اچھے طریقے سے قوم کے سامنے پیش کرسکیں ورنہ زندگی کے ہر موڑ پر آپکو اس طرح کی مشکلات کا سامنا رہے گا۔
The contributor, Mian Mujeeb-ur-Rehman, is a chemical engineer who doubles as a columnist.
Reach out to him @mujeebtalks.