spot_img

Columns

Columns

News

بھارت آئندہ 24 سے 36 گھنٹوں میں پاکستان کیخلاف فوجی کاروائی کا ارداہ رکھتا ہے، وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑ

بھارت آئندہ 24 سے36 گھنٹوں میں پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ کسی بھی بھارتی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ پاکستانی قوم اپنی خودمختاری اور سالمیت کے دفاع کیلئے مکمل تیار ہے۔

لاہور دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں شامل، نیویارک، لندن اور برلن سے زیادہ محفوظ قرار

عالمی ادارے نمبیو کی 2025 رپورٹ میں لاہور کو دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں شامل کر لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، لاہوراب نیویارک، لندن اور برلن جیسے بڑے شہروں سے بھی زیادہ محفوظ قرار۔

پاکستان اور بھارت اپنے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تنازعات خود حل کریں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان اپنے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تنازعات خود حل کرنا ہوگا۔ دونوں ممالک میں تناؤ شدید ہے، مگر ایسا ہمیشہ سے رہا ہے۔

Pannun warns Sikh soldiers not to fight Pakistan, says India is the real enemy

Pakistan stands with Sikhs, not against them — Pannun calls it a future ally of Khalistan. He urges Sikh soldiers: reject Modi’s war, this fight isn’t yours.

پاکستانی افواج تیار ہیں، کسی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائیگا، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار

پاکستان کی مسلح افواج مکمل طور پر تیار ہیں، اور کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی ناقابل قبول ہے، ایسے اقدامات کو پاکستان اپنی قومی سلامتی کے خلاف اور عملی طور پر اعلانِ جنگ تصور کرتا ہے۔
Opinionجلسہ کس کا بڑا تھا؟
spot_img

جلسہ کس کا بڑا تھا؟

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

اکیس مئی کی شام کو پشاور میں مولانا فضل الرحمن کا جلسہ جاری تھا اور گھنٹہ بھر میں مولانا کو خطاب بھی کرنا تھا۔ ایک صحافی دوست کے ساتھ پروگرام یہی تھا کہ مولانا سے مل لیا جائے لیکن ایک ضروری کام کے پیش نظر واپس آنا پڑا. تاہم جلسے کے حجم اور موڈ کا اندازہ ہو چکا تھا۔ رات ڈیڑھ بجے میں نے ٹوئیٹ کیا کہ مولانا فضل الرحمن کا جلسہ عمران خان کے پچھلے جلسے سے کم از کم تین گنا بڑا تھا اور ٹوئیٹ کر کے سو گیا۔ صبح کو سوشل میڈیا پر نظر پڑی تو یہ ”خبر“ معمول سے کچھ زیادہ وائرل ہو گئی تھی۔ ظاہر ھے کہ ایک طرف اگر مولانا کے پیروکاروں سمیت عمران مخالف دوسری جماعتوں سے وابستہ سیاسی کارکن اس خبر کی داد و تحسین کر رھے تھے تو دوسری طرف عمران خان کے ھمدرد بھی حسب توقع گالم گلوچ پر اتر آئے تھے۔

اس دوران ایک مشہور ٹی وی چینل سے فون آیا اور تھوڑی دیر بعد ان کی ٹیم مائیک اور کیمرے سے لیس متعلقہ ٹوئیٹ پر ”وضاحت“ مانگنے گھر پہنچی تو جذبات کو دلیل بنانے کی بجائے میں نے ٹھوس ثبوتوں اور حقائق کو بنیاد بنا کر عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے جلسوں کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ۔

عمران خان کا جلسہ موٹروے ٹول پلازہ کے کنارے جس میدان میں ہوا اس میدان کا کل رقبہ پشاور کے ممتاز صحافی طارق آفاق کے مطابق ایک سو پانچ کنال ہے اور اتنے رقبے میں زیادہ سے زیادہ بیس سے پچیس ہزار تک لوگ سما سکتے ہیں تاہم میدان سے باہر بھی گنجائش موجود ہے۔ گویا چالیس ہزار تک سہولت دی جا سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عمران خان کا جلسہ روزوں میں نماز تراویح کے بعد منعقد ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ نوجوانوں کو جلسے کی طرف کھینچنے کا یہ بہت مناسب وقت تھا کیونکہ اس وقت نوجوان عمومی طور پر بائیک ریس سے کرکٹ میچ تک کسی نہ کسی ہنگامے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اس جلسے کے لئے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے مختلف اضلاع سے گیارہ سو پولیس اہلکاروں کو بھی تعینات کیا تھا۔ جبکہ جلسہ موٹروے کے کنارے ہونے کے سبب اہم اضلاع (جہاں سے تحریک انصاف کو کثرت سے عوامی نمائندگی حاصل ھے) جن میں پشاور چارسدہ نوشہرہ مردان اور صوابی شامل ہیں کےلئے بہت حد تک قابل رسائی بھی تھا۔ جس کا بھر پور فائدہ بھی اٹھایا گیا۔ لیکن ان باتوں سے بالاتر عمران خان داد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے حلقہ اثر (یوتھ) کی نفسیات کابہت گہرا مشاھدہ رکھتے ہیں۔ اسی لئے وہ ایک جارحانہ رویہ بلکہ گالم گلوچ کے ساتھ ساتھ جلسوں میں ڈی جیز لائٹنگ اور ہیلی کیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بری کارکردگی کے باوجود بھی اپنی مقبولیت گرنے نہیں دیتا۔ مختصر یہ کہ عمران خان کا جلسہ یقینا ایک کامیاب جلسہ تھا لیکن اس کا حجم چالیس ہزار سے اوپر ہرگز نہ تھا۔

اب آتے ہیں گزشتہ روز ہونے مولانا فضل الرحمن کے جلسے کی طرف جو بنیادی طور پر جلسہ نہیں بلکہ تحفظ حرمین کانفرنس ہی تھا۔ یا یوں کہہ لیں کہ اس کانفرنس کی آڑ میں اپنی سیاسی طاقت کا اظہار تھا۔ یہ جلسہ شہر سے ملحقہ علاقے پتنگ چوک (جسے کبوتر چوک بھی کہا جاتا ہے) میں منعقد ہوا۔ پتنگ چوک سے رنگ روڈ تک کم از کم تین کلومیٹر کا فاصلہ ھے اور یہ دو رویہ روڈ ہے جسے جلسہ گاہ بنایا گیا تھا۔ اس روڈ کی مجموعی چوڑائی تقریبا سو فٹ ھے۔ گویا یہ مجموعی رقبہ تقریبا دو سو کنال کا بنتا ھے جو موٹر وے والے میدان (جہاں عمران خان نے جلسہ کیا تھا) کی نسبت دگنا بڑا ہے۔ جبکہ پتنگ چوک والی روڈ سے ملحقہ ذیلی سڑکوں پر بھی ہزاروں کی تعداد میں جلسے کے شرکاء موجود تھے۔ یہی وہ ٹھوس حقائق اور شواہد تھے جو اس ٹوئیٹ کی بنیاد بنا اور انہی حقائق کو آگے چل کر میں میڈیا کے سامنے اپنی دلیل بھی بناتا رہا۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کئ گنا بڑا جلسہ کرنے کے باوجود پروپیگنڈے کے محاذ پر جمیعت علماء اسلام ( دوسرجماعتوں کو بھی) کو عمران خان کے مقابل ناکامی کا سامنا کیوں ہے؟ بدلتے ہوئے زمانے اور وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جماعت اور اس کی لیڈر شپ آگے بڑھے تو یہ مقبولیت کے راستے کھلنے میں دیر نہیں لگتی۔ عمران خان کو داد دینی پڑے گی کہ اس نے نفسیاتی اور عملی طور پر ان تکنیک کا استعمال کیا اور تباہ کن کارکردگی کے باوجود بھی اپنے کارکنوں کو جذباتی سطح پر ہموار رکھا۔ عمران خان کی کل طاقت کیا ھے؟ ظاھر ھے کہ کارکردگی کے حوالے سے وہ ایک ناکام سیاسی لیڈر ہیں۔ لیکن وہ نوجوان طبقے کی نفسیات سے کھیلنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ اور یہی ”ہنر“ اس کے رویئے میں اشتعال اور جلسوں میں ڈی جیز لائٹننگ ہیلی کیم میوزک خواتین اور(ان پر کیمروں کی زومنگ) کو جنم دیتا ھے۔ ان ”معاملات“ کو عمران خان خود ہی بہت باریک بینی کے ساتھ دیکھتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسی میں اس کی سیاسی کامیابیاں اور مقبولیت پوشیدہ ہیں۔

لیکن دوسری جماعتیں قدرے روایتی انداز سے کھیل رہے ہیں۔ جو مظبوط تنظیمی صلاحیت اور عوامی پذیرائی کے باوجود لائم لائٹ میں میرٹ کی مناسبت سے جگہ نہیں پاتے۔ میں اب بھی اپنی اس بات پر قائم ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کا جلسہ عمران خان کے جلسے سے تین گنا بڑا تھا لیکن جدید تکنیک کے استعمال کے فقدان نے اس ”لہر“ کو قدرے عنقا کر دیااور یہ بہر حال جماعت کی تنظیمی ناکامی اور وڑن کے فقدان سے پھوٹا۔

میڈیا کے ساتھ ٹاپ لیڈر شپ کے روابط نہ ہونے کے برابر ہیں حتی کہ مولانا فضل الرحمن کا بیٹا اور بھائی بھی اس سلسلے میں خوفناک لا پرواھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”دوسرے معاملات“ میں مصروف نظر آتے ہیں جن سے بھر حال بہت سی قیاس آرائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ اس سلسلے میں (میڈیا کے ساتھ روابط) تحریک انصاف کو جمیعت العلماء اسلام پر واضح برتری حاصل ہے۔ البتہ مولانا ذاتی طور پر اس حوالے سے حد درجہ حساس اور ذمہ دار ہیں۔ لیکن جب تمام تر ذمہ داریاں بھی پارٹی لیڈر کے کندھوں پر ڈالی جائیں اور ہر کوئی خود کو بری الذمہ سمجھتے ہوئے کہیں اور مصروف ہو جائے۔ تو پھر کامیاب ترین جلسے اور عوامی پذیرائی بھی پردہ اخفا میں چلی جاتی ہیں اور اس کے نتائج وھی نکلتے ہیں۔ جیسا کہ اگلے دن مولانا فضل الرحمن کی شدید محنت اور دلیر سیاست کے ساتھ ہوا۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: