spot_img

Columns

Columns

News

روس اور پاکستان کے درمیان براہِ راست فضائی رابطے کا آغاز جلد متوقع، روسی خبر رساں ایجنسی

روس اور پاکستان جلد ہی ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان براہِ راست فضائی سروس کا آغاز کرنے جا رہے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا۔ روسی خبر رساں ایجنسی "تاس" کے مطابق، یہ پیش رفت حالیہ بین الحکومتی اجلاس میں ہوئی ہے۔

Russia and Pakistan to launch direct flights soon

Russia and Pakistan plan direct flights between Moscow and Islamabad, boosting trade ties, tourism, and economic collaboration.

Pakistan stock market surges as KSE 100 crosses 107,000 points

The KSE 100 Index crosses 107,000 points, marking a historic milestone for Pakistan’s stock market, driven by bullish trends and growing investor confidence.

پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی: کے ایس ای 100 انڈیکس 107,000 پوائنٹس کی حد عبور

پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے ایک اور اہم سنگِ میل عبور کر لیا، جہاں کے ایس ای 100 انڈیکس 107,109 پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ 2,000 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ، کاروباری حجم 51 کروڑ شیئرز سے تجاوز کر گیا، جو ملکی معیشت پر سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کا مظہر ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی گرفت کمزور: وزیرِاعظم میشل بارنیئر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب

فرانسیسی پارلیمنٹ میں وزیرِاعظم میشل بارنیئر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب۔ ایک غیرمعمولی اتحاد کے ذریعے میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت "نیشنل ریلی" نے بائیں بازو کے اتحاد کے ساتھ مل کر بارنیئر کی حکومت کو گرا دیا۔ صدر مینوئل میکرون سخت مشکلات کا شکار۔
Op-Edانصاف یا تحریکِ انصاف
spot_img

انصاف یا تحریکِ انصاف

Op-Ed
Op-Ed
Want to contribute to The Thursday Times? Get in touch with our submissions team! Email views@thursdaytimes.com
spot_img

غالب اس دور میں ہوتے تو دل اور جگر کو رونے پیٹنے کے علاوہ منہ اور بال نوچنے کی ترکیب کا بھی استعمال کرتے کیونکہ اس وقت تقریباً ہر باشعور پاکستانی کی یہی حالت ہے۔ جو ریمارکس اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے عمران خان اور پی ٹی آئی راہنماؤں پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران دیئے گئے وہ سن کر سبھی ششدر رہ گئے۔ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر اور صریح قانون شکنی کر کے بھی بچ سکتا ہے؟ کیا گرین بیلٹ کے جلتے چناروں کے ساتھ توہینِ عدالت کا قانون بھی جل کر راکھ ہو گیا تھا؟ کیا ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا کوئی جرم نہیں؟ اتنی سہولت سے عمران خان کو توہینِ عدالت کے الزام سے بری کر دیا گیا کہ ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ یہ انصاف ہوا ہے یا تحریکِ انصاف۔ ویسے تو ابھی چند ہی دن پہلے توہینِ مسجدِ نبوی صل اللہ علیہ والہ وسلم کے الزام سے بھی اسی طرح بچانے کی کوشش کرتے ہوئے مقدمہ ہی دائر کرنے سے روک دیا گیا تھا اور دوسری طرف شیریں مزاری کی توہین اوہ معذرت گرفتاری پر پلک جھپکتے میں سوموٹو لے کر رات گیارہ بجے عدالت لگا دی گئی تھی لیکن 25 مئی کو عدالت سے ملنے والی اجازت کے بعد ہونے والے واقعات پر جو سماعت 26 مئی کو کی گئی اس نے تو جانبداری اور آئین و قانون سے چشم پوشی کے تمام ہی ریکارڈ توڑ دیئے۔ میں اگر جج صاحبان کے ریمارکس کا فرداً فرداً جائزہ لوں تو جو ریمارکس سب سے پہلے نظر سے گزرے وہ تھے ”ممکن ہے کہ عمران خان کو صحیح پیغام نہ پہنچا ہو“ واہ جج صاحب واہ! کبھی مفروضوں پر سزا اور کبھی مفروضوں پر وکالت و معافی؛ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ بہرحال جج صاحبان یہ ریمارکس دیتے ہوئے شاید بھول رہے تھے کہ عمران خان نامی تحریکِ انصاف کا سربراہ سوشل میڈیا کو ایک لمحے کے لیے بھی اگنور نہیں کرتا اور 25مئی کی شام سوشل میڈیا نے عدالت کے فیصلے کو فوری طور پر وائرل کرنا شروع کر دیا تھا اور عدالت سے اجازت ملتے ہی عمران خان نے کنٹینر پر چڑھ کر عدالت کا شکریہ بھی ادا کیا تھا اور اپنے راولپنڈی اسلام آباد کے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم بھی دیا تھا۔

اس سے بھی پہلے بابر اعوان نے پی ٹی آئی کی اعلٰی قیادت سے مشاورت کے بعد عدالت کو بتایا تھا کہ ہمیں جی نائن اور ایف نائن کے درمیان جلسے کی اجازت درکار ہے۔ لیکن 26مئی کو جج صاحب ایسے بن گئے جیسے وہ جج نہیں عمران خان کے وکیل ہوں۔ ایسا بس انہیں عدالتوں میں ممکن ہے جنہیں دنیا مقابلے میں 130 میں سے 126واں نمبر دیتی ہے۔ ایک ریمارکس پی ٹی آئی سپورٹرز کی توڑ پھوڑ اور آگ لگانے پر بھی تھا اور کہا گیا کہ ”پی ٹی آئی کے کارکنان بغیر قیادت کے تھے اور انہیں کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں تھا، انہیں صرف عمران خان ہی کنٹرول کر سکتا تھا“ کیا ہی عمران خان کا وکیل اس طرح عمران خان اور اس کے سپورٹرز کی وکالت کرتا جو وکالت جج صاحبان نے کر دی! نہ تو سوشل میڈیا دیکھ کر آپس میں تبصرے کرنے والے ججز کو شیخ رشید کے خونی انقلاب کے نعرے یاد آئے، نہ عمران خان اور دیگر قیادت کے اشتعال دلاتے بیانات یاد آئے، نہ ہی 2014 دھرنے کے دوران عارف علوی کے ساتھ کی گئی وہ گفتگو یاد آئی جس میں پی ٹی وی کی عمارت میں گھسنے پر خوشی کا اظہار ہو رہا تھا اور نہ ہی ایک ہی دن پہلے پولیس کانسٹیبل کے قتل پر پی ٹی آئی قیادت کا ردعمل یاد رہا اور پی ٹی آئی سپورٹرز کو ایسے معصوم قرار دے دیا جیسے وہ ان کے لے پالک ہوں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے ایم این اے عامر ڈوگر کی ایک فوٹیج بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ کارکنان کو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی ترغیب دیتے ہوئے گاڑی کی چھت سے گر گئے تھے۔ لیکن جج صاحبان کو تو وکالت کا شوق چرایا تھا تو کون منصفی کے اصول یاد کراتا؟

سب سے مضحکہ خیز اور تکلیف دہ ریمارکس درختوں کو جلانے کی توجیہ دیتے ہوئے دیئے گئے۔ جج صاحب فرماتے ہیں کہ ”مظاہرین نے آنسو گیس کی شیلنگ کے اثرات سے بچنے کے لیے درختوں کو آگ لگائی“ میں پھر کہنے کو مجبور ہوں کہ ان ججز کے ہوتے ہوئے عمران خان کو وکیل کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔ خیر کیا جج صاحبان یہ سہولت باقی عوام کو بھی دیں گے؟ کسی کے گھر گیس نہیں آ رہی تو سرکاری درخت کو آگ لگا کر کھانا بنا لے، کسی کو سردی لگ رہی ہے تو سرکاری املاک کو آگ لگا کر گرمائش کا بندوبست کر لے، کسی کو لائیٹ کی کمی درپیش ہے تو درختوں کو آگ لگا کر روشنی کر لے۔ کیا 22کروڑ کو یہ اجازت دی جائے گی یا یہ خصوصی رعایت صرف پی ٹی آئی کے سپورٹرز کو دی گئی ہے؟ ایک اور جگہ جج صاحبان کہتے پائے گئے کہ”عدالت کا سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے“ میں معزز عدلیہ سے کہنا چاہوں گی کہ آپ کا تو کیا سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد اٹھا ہو گا اور پتہ نہیں کہ آپ اعتماد کرنے اور نہ کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں یا نہیں لیکن عوام کا اعتماد ضرور عدلیہ پر سے اٹھ گیا ہے۔ وہ عدالتیں جہاں 22لاکھ کے قریب مقدمات ججز کی نظرِ کرم کے منتظر ہیں؛ وہ سپریم کورٹ جہاں تقریباً 52ہزار مقدمات شنوائی کا انتظار کر رہے ہیں؛ ان عدالتوں میں بیٹھے معزز کہلانے والے ججز سیاسی مقدمات کی سماعت کے لیے فوری بینچ بھی بنا دیتے ہیں اور جج کے ساتھ ساتھ وکیل بھی بن بیٹھتے ہیں تو ایسی عدالتوں پر بھلا عوام اعتماد کیوں کرے؟ ایسی عدالت جس کے ایک فیصلے سے فتنہ پرور شخص کے مشتعل کارکن سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں اور ہرے بھرے درختوں کو راکھ میں بدل دیں ان ججز اور ان کے فیصلوں پر عوام اعتماد کیوں اور کیسے کرے؟ وہ عدالت جو ایک شخص اور اس کے کارکنان کے حقوق کا تو وکیل بن کر دفاع کرے لیکن 22کروڑ کے حق کو فراموش کر دے، وہ عدالت جو ایک شخص اور اس کے کارکنان کی قانون شکنی کو ماتھے پر بل ڈالے بغیر ایک سماعت میں نظر انداز کر دے لیکن عام لوگوں کو انصاف دینے میں سالوں لگا دے اس عدالت پر عوام اعتماد کیوں کرے؟


The contributor, Naddiyya Athar, has an M.A. in Urdu Literature and a B.Ed. With experience teaching at schools and colleges across Pakistan, she specialises in the discussion of the country’s ever-changing political landscape.

  1. Great write.
    Excellent questions.
    Why would anyone respect such judgements or the judges who pronounce them.
    These judges are shame for the entire nation.

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: