spot_img

Columns

Columns

News

Bill Clinton admired Nawaz Sharif’s charisma, says Shahid Khaqan Abbasi

"Former U.S. President Bill Clinton was impressed by Nawaz Sharif's personality and character, and it was on this basis that he played a role in securing Sharif's release. Nawaz Sharif possesses many qualities that inspire people," says former Pakistani prime minister Shahid Khaqan Abbasi.

سابق امریکی صدر بِل کلنٹن میاں نواز شریف کی شخصیت سے متاثر تھے، شاہد خاقان عباسی

سابق امریکی صدر بِل کلنٹن میاں نواز شریف کی ذات اور شخصیت سے متاثر تھے اور اسی بنیاد پر انہوں نے میاں نواز شریف کی رہائی میں کردار ادا کیا، میاں نواز شریف کی ذات میں بہت خوبیاں ہیں جن سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی

پاکستان نے آسٹریلیا کو شکست دے کر 22 برس بعد ون ڈے سیریز جیت لی

پاکستان نے پرتھ میں تیسرے ون ڈے میچ میں زبردست کارکردگی دکھاتے ہوئے آسٹریلیا کو شکست دے کر تین میچوں کی سیریز 1-2 سے جیت لی۔ پاکستانی بولرز نے شاندار بولنگ کا مظاہرہ کیا۔ یہ فتح 22 سال بعد آسٹریلیا میں پاکستان کی پہلی سیریز میں کامیابی ہے۔

New GCC rail project on track to unify Gulf by 2030

GCC to link Gulf states by rail by 2030, aiming to streamline trade and reduce emissions, with robust policies and advanced eco-friendly infrastructure.

Putin pledges support to Pakistan after Quetta attack

Russian president Vladimir Putin has condemned a recent terror attack in Quetta, pledging support and cooperation with Pakistan. Russia stands with Pakistan as security efforts intensify, said Putin.
Opinionعمران خان بے نظیر بھٹو سے سیکھ لیں
spot_img

عمران خان بے نظیر بھٹو سے سیکھ لیں

عمران خان کو جلسوں کے دوران سٹیج پر لالٹین تباہ دے اور اسلامی ٹچ کے مشورے دینے والے ”اعلی ذھانت کے حامل“ مشیروں نے ایک مقبول سیاسی لیڈر کو اس طرف دھکیلا جہاں سے گالم گلوچ بہتان طرازی الزامات جھوٹ اور فریب کاری کے علاوہ کچھ برآمد ہی نہیں ہو رہا۔

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

اگر کوئی شخص کسی خوفناک خوش فہمی یا تباہ کن حماقت کی بنیاد پر یہ سمجھنے لگا ہے کہ عمران خان ھر قسم کی طاقت اور اقتدار کے حصول کے مواقع ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان کا سیاسی مستقبل ختم ہو چکا ہے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ وہ شخص پاکستان کی تاریخ سیاست اور گرد و پیش کے سماجی مزاج سے مکمل طور پر نا واقف ہی ہے۔ عمران خان کی سیاست سے اتفاق یا اس کی انتظامی صلاحیت کی داد دینا کسی پروفیشنل صحافی کےلئے فی الحال گو کہ ایک مشکل امر ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے کہ آپ عمران خان کی مقبولیت سے انکار کریں بالکہ ماننا پڑیگا کہ وہ پاکستانی سیاست کے اس مقبول ترین رہنماؤں کی لسٹ میں شامل ہیں جن میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد فاطمہ جناح بھٹو ایئر مارشل اضغر خان (ایک مخصوص وقت تک) بے نظیر بھٹو اور نواز شریف شامل ہیں۔

پورے پاکستان میں صرف سندھ کے علاوہ مرکز پنجاب خیبر پختونخواہ بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے بلکہ اب بھی کئی وفاقی اکائیوں میں عمران خان کی ہی جماعت برسر اقتدار ہے اور سیاسی و انتظامی طاقت بھی انہی کے ہاتھ میں ہے جبکہ ”طاقت کے مراکز“ میں بھی اسے ایک موثر حمایت حاصل ہے جہاں سے اس کی استدلال سے محروم سیاست کو بھی طاقت اور توانائی فراہم ہو رہی ہے جس کی تازہ ترین مثال ایک بے وقت اور بے بصیرت لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی کو انہدام سے بچاؤ کی شکل میں سامنے آئی۔ لیکن کیا کیا جائے کہ خان صاحب نے اس شاندار ”موقع“ کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس بد نما ایجی ٹیشن کی طرف موڑ دیا جس سے پولیس پر حملے اے ٹی ایم مشینیں کاٹنے اور ہرے بھرے درخت جلانے کی سیاست بلکہ حماقت برآمد ہوئی۔ کاش کہ علی آمین گنڈاپور قاسم سوری اور شہباز گل جیسے مشیروں کی بجائے کوئی رجل رشید بھی عمران خان کے آس پاس موجود ہو اور وہ انہیں سمجھا سکیں کہ ان کی مقبولیت کا حجم کیا ہے اور سامنے موجود مواقع کون سے ہیں اور ان دونوں (مقبولیت اور مواقع) کے اشتراک سے سیاسی فوائد کی سمت پیش قدمی کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ہیں۔ کیا اسلامی ٹچ جذباتی نعروں اور سطحی گالم گلوچ کے مشورے دینے کے علاوہ کسی مشیر کو دیکھا گیا جس نے موجودہ حکومت خصوصا پی ٹی آئی کے طاقتور سیاسی حریف مسلم لیگ ن کی پے درپے غلطیوں اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی طرف خان صاحب کی توجہ دلائی ہوْ۔ کس مشیر نے خان صاحب کے کان میں کہا کہ موجودہ حکومت اور برسراقتدار جماعت سیاسی انتظامی اور مالی معاملات میں کہاں کہاں پنجاب کو ضرورت سے زیادہ ترجیح دے کر سیاسی توازن کھو رہی ہے۔ کس مشیر نے انہیں سمجھایا کہ خیبر پختونخواہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت ہے بلکہ سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں بھی ممبران کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔ اس لئے صرف قومی اسمبلی سے استعفے دینا نہ صرف ایک سیاسی حماقت ہے بلکہ اپنے ہی اراکین قومی اسمبلی کے اندر منفی اور لیڈر شپ مخالف سوچ پروان چڑھانا بھی ہے اس فیصلے کا ایک جذباتی عیاشی کے علاوہ فائدہ تو کوئی نہیں لیکن پارٹی کے لئے نقصانات بے حساب ہیں۔

ہیں پورے پاکستان میں صرف سندھ کے علاوہ مرکز پنجاب خیبر پختونخواہ بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے بلکہ اب بھی کئی وفاقی اکائیوں میں عمران خان کی ھی جماعت برسر اقتدار ہے اور سیاسی و انتظامی طاقت بھی انہی کے ھاتھ میں ہے۔ جبکہ”طاقت کے مراکز“ میں بھی اسے ایک موثر حمایت حاصل ہے۔ جہاں سے اس کی استدلال سے محروم سیاست کو بھی طاقت اور توانائی فراہم ہو رہی ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال ایک بے وقت اور بے بصیرت لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی کو انہدام سے بچاؤ کی شکل میں سامنے آئی۔ لیکن کیا کیا جائے کہ خان صاحب نے اس شاندار”موقع“ کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس بد نما ایجی ٹیشن کی طرف موڑ دیا جس سے پولیس پر حملے اے ٹی ایم مشینیں کاٹنے اور ھرے بھرے درخت جلانے کی سیاست بلکہ حماقت برآمد ہوئی۔ کاش کہ علی آمین گنڈاپور قاسم سوری اور شہباز گل جیسے مشیروں کی بجائے کوئی رجل رشید بھی عمران خان کے آس پاس موجود ہو اور وہ انہیں سمجھا سکیں کہ ان کی مقبولیت کا حجم کیا ہے اور سامنے موجود مواقع کون سے ہیں۔ اور ان دونوں(مقبولیت اور مواقع ) کے اشتراک سے سیاسی فوائد کی سمت پیش قدمی کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ کیا اسلامی ٹچ جذباتی نعروں اور سطحی گالم گلوچ کے مشورے دینے کے علاوہ کسی مشیر کو دیکھا گیا جس نے موجودہ حکومت خصوصا پی ٹی آئی کے طاقتور سیاسی حریف مسلم لیگ ن کی پے درپے غلطیوں اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی طرف خان صاحب کی توجہ دلائی ہو۔ کس مشیر نے خان صاحب کے کان میں کہا کہ موجودہ حکومت اور برسراقتدار جماعت سیاسی انتظامی اور مالی معاملات میں کہاں کہاں پنجاب کو ضرورت سے زیادہ ترجیح دے کر سیاسی توازن کھو رھی ھے۔ کس مشیر نے انہیں سمجھایا کہ خیبر پختونخواہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت ہے بلکہ سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں بھی ممبران کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔ اس لئے صرف قومی اسمبلی سے استعفے دینا نہ صرف ایک سیاسی حماقت ہے بلکہ اپنے ھی اراکین قومی اسمبلی کے اندر منفی اور لیڈر شپ مخالف سوچ پروان چڑھانا بھی ھے۔ اس فیصلے کا ایک جذباتی عیاشی کے علاوہ فائدہ تو کوئی نہیں لیکن پارٹی کے لئے نقصانات بے حساب ہیں۔

خان صاحب کو جلسوں کے دوران سٹیج پر لالٹین تباہ دے اور اسلامی ٹچ کے مشورے دینے والے”اعلی ذھانت کے حامل“ مشیروں نے ایک مقبول سیاسی لیڈر کو اس طرف دھکیلا جہاں سے گالم گلوچ بہتان طرازی الزامات جھوٹ اور فریب کاری کے علاوہ کچھ برآمد ہی نہیں ہو رہا ہے۔ عمران خان کے آس پاس اس بیدار مغز اور ذہین مشیروں کو کہاں تلاش کیا جائے جنہیں عوام کی نفسیات کا مشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ خبر تک رسائی بھی ہو اور تجزیئے پر دسترس بھی جو خان صاحب کو مشورہ دے کہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ ن توہین آمیز انداز میں برے وقت کے کس کس ساتھی کو نظر انداز کر رہی ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل کس رہنما کے بعض قریبی عزیزوں نے کہاں کہاں ہاتھ مارنے شروع کئے ہیں۔ نواز شریف کے مقبول بیانیئے یعنی سول سپر میسی کے بخیئے کہاں کہاں ادھیڑے جا رہے ہیں اور شوق اقتدار کی غبار آلود دبیز لہر بیانیئے کو کس حد تک عنقا کر چکا ہے۔ نواز شریف کے مشکل دنوں کے ساتھی اور رفقاء (سیاستدان صحافی دانشور اور سول سرونٹس) تحفظات اور ناراضگی کا شکار کیوں ہیں اور تحریک انصاف اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کی کمزوریاں کون کون سی ہیں اور عوام کن کن مسائل کا سامنا کر رھے ہیں۔ اپنی کمزوریوں کا اعتراف اور ان پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدامات۔ مسائل کے حل کے لئے ہوائی باتوں کی بجائے نئے آئیڈیاز کی تلاش اور سنجیدہ طرز عمل۔ یہ وہ مشورے ہیں جو عمران خان کی سیاسی انہدام کو تعمیر اور اٹھان کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ عمران خان کے ارد گرد بچگانہ حرکتوں اور سطحی سوچوں والے مشیروں کی جگہ وژنری اور سنجیدہ مشیر لےکر عمران خان کی شخصیت اور سیاست کو کامیابی کی طرف موڑ دیں۔

اس”تبدیلی“ پر کچھ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت بھی نہیں کہ عمران خان کا اقتدار بھی چلا گیا اور ایسٹبلشمنٹ کے معتوب بھی ٹھرے کیونکہ تاریخی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔ (اور سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف جیسی موثر”نادانی“ کو مقتدر قوتیں اپنے لئے کسی نعمت سے کم سمجھتے بھی نہیں۔) سو انہیں کھونے کا نقصان کیوں اٹھائیں۔

کیا موجودہ منظر نامے سے موازنہ کرتے ہوئے کسی مشیر نے کبھی عمران خان کو تاریخ کا یہ حوالہ یاد کرواتے ہوئے ان کا ذہن بے سر و پا باتوں سے تجربے اور حقائق کی طرف موڑنے کی کوشش کی کہ کہ انیس سو نوے میں ایسٹبلشمنٹ کے نمائندہ صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے نکالا بلکہ اس کے شوہر آصف علی زرداری پر مقدموں کی بھرمار کر کے جیل میں بھی ڈالا جبکہ سندھ میں بھٹو خاندان کے سفاک دشمن جام صادق کو وزیر اعلی بنوا کر پیپلزپارٹی پر ایک قہر کی صورت نازل کی کی؟

ان برے حالات میں الیکشن ہوئے تو ظاہر ہے کہ پیپلزپارٹی کو صرف پینتالیس قومی اسمبلی کی سیٹیں ملیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ نواز شریف نے پورے ملک میں صفایا کر دیا اور وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ لیکن واقعی بے نظیر بھٹو کیا جہاندیدہ خاتون سیاستدان تھی! چند دن بعد پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا تو بے نظیر نے سختی کے ساتھ اجتماعی استعفوں کا آپشن رد کر دیا اور آکر قومی اسمبلی کی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر”انتظار“ کرنے لگی۔

رفتہ رفتہ مقبول نواز شریف اور آمریتوں کے پروردہ غلام اسحاق ایک دوسرے کے مقابل آنے لگے جس کا فائدہ زیرک بے نظیر بھٹو چابکدستی کے ساتھ اٹھانے لگی۔ اور پھر صرف ڈھائی سال بعد ایک شام غلام اسحاق خان بے چینی کے ساتھ ایوان صدر کی راہداریوں میں ٹہلتے ہوئے بے نظیر بھٹو کا انتظار کرتے رہے۔ بے نظیر قدرے تاخیر سے پہنچیں تو غلام اسحاق خان کے”ملزم“ آصف علی زرداری بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے جس نے بیٹھتے ہی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر صدر اسحاق کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ ہمارے مطالبات سن لیں! اگلا منظر نامہ یوں تھا کہ نواز شریف بھی معزول ہو چکے تھے نئے الیکشن بھی ہو چکے اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم کا حلف بھی اٹھا چکی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مشکل دنوں میں بے نظیر بھٹو کا تدبر اور ذہانت ہی اس کے کام آیا اور یہ یہی وہ ذہانت تھی جس نے شیخ عبد الرشید سے پروفیسر این ڈی خان اور رضا ربانی سے واجد شمس الحسن تک جیسے جہاندیدہ اور مخلص مشیر اس کے اردگرد کھڑے کر دیئے تھے۔

سو عمران خان بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں کئی گنا کم مشکلات کا شکار ہیں لیکن ذاتی ذہانت اور مشیروں کے مشوروں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور عمران یہاں پر مار کھا رہے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ یہی وہ المیہ ہے جو عمران خان کی سیاست کو ایک سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.