ماحول خاصہ گرما گرم تھا۔ درخواست گزاروں کا آنا جانا جاری تھا۔ مائیک آن اور تقریریں،مذمتیں ہو رہی تھیں۔ آنسو بہہ رہی تھیں،دل دھڑک رہی تھیں۔ گہماگہمی کی سما تھیں لیکن یکجہتی کرنے والے حسابی تھے اور ہر رنگ و نسل کے لوگ تھے۔ البتہ مدعی اور مؤقل کا موقف اور مطالبہ ایک ہی تھا۔ چہرے ہزار۔
میڈیا کی آنکھیں ریکارڈ کر رہی تھیں لیکن اسٹریم میں بلیک آؤٹ تھی۔ اس کی وجہ مخالفین کی طاقتِ اقتدار کی منتقلی نہ تھی بلکہ ستّر سالوں سے ہر نمائندہ جسے مخالفین بھی کہہ سکتے ہیں کی وجہ سے تھیں، ان سے مظاہرین انصاف بھی مانگ رہے تھے اور میڈیا انہی کی وجہ سے وہاں موجود چہروں کو گھر کے صحن اور کمرے میں رکھے ٹی وی میں دکھا نہیں پا رہا تھا۔
سبھی وجوہات انتقامی سیاسی چپقلش بھی نہیں تھی۔ ”کل کی آزاد میڈیا کا وزیر کا قملدان دوسرے سیاسی جماعت کا سپرد تھا تو نہیں دکھاتا“ والا سین بھی نہیں تھا۔ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی نہیں تھا۔ اے ون فلیڈ ریفرنس اور صاحبِ کرسی کا نااہلی کا معمہ بھی چل نہیں رہا تھا۔ سب کچھ الگ تھلگ،لوگ الگ،مطالبات الگ،ان سے سرکاری رویہ الگ،سرکاری میڈیا اور موقف بھی الگ اور ان کا صوبہ بھی الگ۔ بلوچ مظاہرین کی بیٹھک تھی اور سی ٹی ڈی ملاقات کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کروا گئی تھی۔ ڈیڈ لائن تمام ہوا لوگ پھر آگئے۔ سی ٹی ڈی کی مذاکراتی ٹیم اپنی الزامات کی دفاع کرنے نہیں آئی۔ پھر بیٹھک سجایا گیا۔
کاؤنٹر ریررازم ڈیپارٹمنٹ بغیر جرم بلوچ طلبا کو آئے روز لاپتہ کرتی ہے۔ الزام لگاتی ہے۔ مزاحمت ہوئی تو رہا وگرنہ سنگین الزامات لگا کر کوٹ کچہری کی تاریخ پہ تاریخ کا مہمان بنا دیتا ہے۔ ادارہ ہے وزارتِ داخلہ کا ماتحت لیکن باخدا لگتا ہے کہ ادارہ داخلہِ سندھ میں جوابدہ نہ ہے اور یا ادارہ کی گن کہیں اور بجتی ہیں۔
البتہ ریڈزون میں دفعہ اکیس سو چوّالیس کا محافظ اگر دفعہ اایک سو چوالیس کی دفاع کرتا ہے تو صرف بلوچ مظاہرین پر۔ چاہے 24 مئی ہو یا 13 جون۔ انکے آگے کوئی نہیں اور پیچھے بھی۔ جب چاہا مارا گھسیٹا،تھانے میں بند کیا۔ پریشر قانونی ہو یا حکومتی نہیں آئی شاید قانون کی رکھوالوں کو سراہا گیا تو پھر حضور لاٹھی اور بندوق کی شست قانون توڑنے والے بلوچ کے خلاف آئی گی۔ بے گناہ کو غائب کرے گی، شہری کے خلاف کبھی اور ہرگز بھی نہیں آئے گی۔ جنابِ والا مدعا ریڑزون کراچی کا ہے۔ انتہائی عالی شان و نو گو ایریا میں رہنے والے حاکمِ وقت کا ہے۔ دوسری شاہراہ پر آگے سے لفٹ میں شاہراہِ دستور کی محافظ سندھ ہائیکورٹ ہے۔ پھر آگے سے رائٹ آئین کے رکھوالوں کا عارضی رہائش گاہ یا کوارٹر۔ ان سب کے ہوتے ہوئے جب انصاف کا بول بالا نہ ہو۔ تو بن جاتی ہے ”سپریم کورٹ آف پولیس“۔
ان کا طریقہِ انصاف بھی الگ اور قانون کی رکھوالی کا طرز بھی منفرد۔ بے گناہوں کو اٹھانے کی احکامات دے کر بنانا ریپبلک کی یاد دہانی کرواتی ہے تو بے گناہوں پر ڈنڈے،کوڑے برسانے کا ضیا الحق کا مارشل لا یاد کرواتا ہے۔ بے گناہوں کو قید خانے لے جاتے ہوئے ایوب مارشل لاء کو یاد دلاتی ہے۔
انفرادی قوت کے چند لوگ اجتماعی مفادات کا پھانڈا پوٹتے ہوئے مارشل لاء کے ادوار میں لے جاتی ہیں جہاں کرسی کے دائیں،بائیں اور آگے پیچھ ایک حکم۔ ایک ہی قانون۔ جج اور وکیل بھی ایک، تھانیدار بھی ایک۔ انفرادی قوت کے چند لوگ اجتماعی مفادات کا پھانڈا پوٹتے ہوئے مارشل لاء کے ادوار میں لے جاتی ہیں جہاں کرسی کے دائیں،بائیں اور آگے پیچھ ایک حکم۔ ایک ہی قانون۔ جج اور وکیل بھی ایک، تھانیدار بھی ایک۔ یہی سین آج کا بھی ہے۔ انتظامی معاملات کا ڈی سی ہو۔ اندرونی معاملات کا محکمہِ داخلہ،تھوڑی اوپر دوسری منزل کا وزیراعلی ہو یا قانون کے داعی ہائیکورٹ۔
کراچی میں یوں لگا، جیسے بھی لگا صحیح لگا۔ کراچی سی ٹی ڈی کے پیچھے سی ٹی ڈی اور آگے سی ٹی ڈی۔ تعارفی کلمات محض یہ کہ قانون کے رکھوالے وحشی نظام کے اندھی قانون کو لگام دینے کی آخری حربہ اسمتعال کرتے ہوئے سارے نظام کو سی ٹی ڈی کے برابر لانے کے لیے ادارہ ہر دم،تازہ دم خوشاں ہے۔
The contributor, Yousuf Baloch, specialises in the discussion of human rights violations worldwide.
Reach out to him @YousufBaluch1.