spot_img

Columns

Columns

News

Who was Ratan Tata? A visionary who elevated the Tata Group to global prominence

Ratan Tata, the former Chairman Emeritus of Tata Group, transformed the conglomerate into a global powerhouse through strategic acquisitions and visionary leadership.

ایسا نظامِ عدل وضع کرنا ہے جس میں فردِ واحد جمہوری نظام کو پٹڑی سے نہ اتار سکے، نواز شریف

تمام جمہوری قوتوں کو مل کر پارلیمنٹ کے ذریعہ ایسا نظامِ عدل وضع کرنا ہے جس میں فردِ واحد جمہوری نظام کو پٹڑی سے اتار کر مُلک و قوم کو سیاہ اندھیروں کے سپرد نہ کر سکے، میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنا درست فیصلہ تھا جس سے مُلک میں جمہوریت کو استحکام ملا۔

پاکستان 2017 میں دنیا کی 24ویں بڑی معیشت تھا، جلد دوبارہ ابھرے گا۔ اسحاق ڈار

پاکستان 2017 میں دنیا کی 24ویں بڑی معیشت تھا اور جی 20 ممالک میں شامل ہونیوالا تھا، پاکستان جلد دوبارہ ابھرے گا، پاک سعودی عرب سٹریٹجک شراکت داری نئے دور میں داخل ہو گئی، پاکستان سعودی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کیلئے پُرعزم ہے۔

پاکستان ہمارا اپنا گھر ہے، سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ سعودی وزیرِ سرمایہ کاری

پاکستان ہمارا اپنا گھر ہے، دونوں ممالک کے درمیان مذہبی اور روحانی تعلقات قائم ہیں، تجارت بڑھانے کیلئے جغرافیائی قربت کا فائدہ اٹھانا چاہیے، سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے پُرعزم ہیں، ہم تجارتی حجم میں اضافہ بڑھتی اقتصادی شراکت داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستانی عوام سعودی عرب کیلئے گہری عزت اور محبت رکھتے ہیں، آرمی چیف

پاکستانی عوام سعودی عرب کیلئے گہری عزت اور محبت رکھتے ہیں، سعودی عرب کے بڑے تجارتی وفد کا دورہِ پاکستان دونوں ممالک کے مابین پائیدار اور برادرانہ تعلقات کی تصدیق کرتا ہے۔
Op-Edنوازشریف کی گفتگو۔۔۔مخاطب کون؟
spot_img

نوازشریف کی گفتگو۔۔۔مخاطب کون؟

Op-Ed
Op-Ed
Want to contribute to The Thursday Times? Get in touch with our submissions team! Email views@thursdaytimes.com
spot_img

مریم نواز شریف کے ایون فیلڈ لندن پہنچنے کے بعد میاں صاحب نے میڈیا کے ساتھ اپنی پہلی باضابطہ گفتگو میں بہت سی باتیں کیں۔ یہ باتیں نئی نہیں تھیں۔ پہلے بھی یہ باتیں ہو چکی ہیں اور ان پر مختلف انداز میں تبصرے اور تجزیے بھی ہو چکے ہیں لیکن اب میاں صاحب نے ان تمام واقعات کو ایک ہی نشست میں کر کے اکٹھا کر دیا۔ میاں صاحب کی گفتگو ایک میچور اور سنجیدہ سیاستدان کی گفتگو تھی؛ ایسی گفتگو جس میں نہ تو کوئی بھڑک تھی، نہ الزام تراشی، نہ مستقبل کے دعوے اور نہ ہی واقعات کو ایسا رنگ دینے کی کوشش جس سے بات کا پس منظر بدل جائے۔ میاں صاحب نے اپنی بیوی، والدہ اور بیٹی کے حوالے سے اپنے جذباتی لمحات شئیر کیے اور اپنے تاثرات بتاتے ہوئے سوال کیا کہ آخر ان کا کیا قصور تھا جو ان کے ساتھ یہ سب کیا گیا؟ ساتھ ہی سوال کا دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم تھا کہ میرا نقصان کرتے کرتے ملک کا نقصان کیوں کر دیا؟ میاں صاحب نے اپنے مختلف ادوار کی کارکردگی کا ذکر کیا۔ ایٹمی دھماکے کرنے کے حوالے سے امریکہ کی پیشکش ٹھکرانے کا ذکر کیا۔ بجلی کے منصوبوں اور دیگر عوامی ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دور کی معاشی ترقی پر بات کی۔ یہ سب کرنے کے باوجود آخر وہ ناپسندیدہ کیوں رہے اور ان کے ساتھ ایسا مخاصمانہ سلوک کیوں کیا گیا؟

میاں صاحب کا یہ سوال ظاہر ہے سیاسی مخالفین سے تو نہیں ہے اور نہ ہی میاں صاحب کے ساتھ یہ سب عمران خان یا کسی اور سیاسی مخالف نے کیا۔ سوال انہیں سے ہے جو اس ریاست کے بزعمِ خود دائمی و حتمی حکمران بنے پھرتے ہیں۔ کچھ لوگ میاں صاحب کے خطاب پر کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے نام کیوں نہیں لیے؟ میاں صاحب جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ سب ظلم اور زیادتی کیوں کی گئی پھر وہ بتاتے کیوں نہیں ہیں؟ یہ وہی سوال ہیں جو 2017 میں جب میاں صاحب کو نااہل کیا گیا اور انہوں نے عوام رابطہ مہم شروع کی تو میاں صاحب سے کیا جاتا تھا کہ آپ نام کیوں نہیں لیتے؟ پھر ایک وقت آیا جب میاں صاحب نے نام بھی لیے اور ہر بات واضح کر کے بتائی بھی تو پھر کیا ہوا؟ کیا میاں صاحب کے لیے نام اور بتائے گئے حقائق میڈیا پر دکھانے کی کسی نے جرات کی؟ کیا کسی نے میاں صاحب کے لیے ناموں پر ان کرداروں سے سوال کرنے کی ہمت کی؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر اب دوبارہ میاں صاحب سے گلہ کیوں اور کیسے؟ آج جب میاں صاحب نے اپنی ہمت، طاقت، سمجھداری، حکمت اور اپنے صبر اور برداشت سے اپنی لڑائی جیت لی ہے تو اب انہیں کیا ضرورت ہے نام لینے کی اور نیا پینڈورا باکس کھولنے کی؟

یہ میاں صاحب کے بیانیے کی جیت ہی ہے کہ 24 چینلز نے میاں صاحب کو براہ راست دکھایا، یہ میاں صاحب کی جیت ہے کہ میاں صاحب کا بھائی وزیراعظم پاکستان ہے، یہ میاں صاحب کی جیت ہے کہ ان کا سب سے قریبی ساتھی وزیر خزانہ پاکستان ہے، یہ میاں صاحب کی جیت ہے کہ ان کی بیٹی تمام مقدمات سے بری ہو کر آج ان کے ساتھ موجود ہے جس کا انہوں نے اعتراف بھی کیا اور مریم کی ہمت، جرات اور بہادری کی تعریف بھی کی۔ میاں صاحب ایک سیاستدان ہیں اور سیاست میں ہر وقت للکار اور مرنے مارنے کی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ بہت سی باتیں بین السطور بھی کہی جاتی ہیں اور معاملات کو جذبات کی بجائے عقل کی کسوٹی پر طے کیا جاتا ہے۔ احتجاج اور مفاہمت ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں اور جب جہاں جس عمل کی ضرورت ہو اس سے کام لیا جاتا ہے۔ میاں صاحب کی گفتگو سن کر صاف پتہ چلتا ہے کہ میاں صاحب نے اپنا بیانیہ نہیں چھوڑا اور وہ آج بھی انہیں مقتدر حلقوں کو اپنے سوالات کی زد میں لا کر کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں جنہوں نے نوازشریف سے مخاصمت میں ملک کا بیڑا غرق کروا لیا۔ میاں صاحب کا بیانیہ وہی ہے بس انداز بدلا ہے اور بدلتے وقت کے ساتھ اس بدلے انداز کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔

اللہ پاک پاکستان کا حامی و ناصر ہو، آمین۔


The contributor, Naddiyya Athar, has an M.A. in Urdu Literature and a B.Ed. With experience teaching at schools and colleges across Pakistan, she specialises in the discussion of the country’s ever-changing political landscape.

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Summiyya
Summiyya
1 year ago

بہت خوب۔ بات کرنے کا انداز اور انداز تحریر متاثر کن ہے۔

Hasnain Farooq
Hasnain Farooq
1 year ago

بہت اچھی اور جامع تحریر ھے۔

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: