تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی جماعت کے لیڈران اور کارکنان کو جیل بھرو تحریک کیلئے تیار رہنے کا عندیہ دے دیا ہے بقول عمران خان یہ وہ اسلئے کررہے ہیں کیونکہ انکی پارٹی کے رہنماوں کوپکڑ کر جیل ڈالا جارہا ہے اور وہ چاہتے کہ سب ایک ہی مرتبہ جیل جاکرحکومت کی خواہش پوری کردیں۔
عمران خان کے جیل بھرنے کے اعلان پرکسی کو زیادہ حیرانی وپریشانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ حقیقت میں عمران خان یہ کام تو پچھلے کئی برس سے کرتے چلے آرہے ہیں جی ہاں پچھلے کئی برس سے۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ اعلان تو عمران خان نے اب کیا ہے تو اس پر عمل درآمد پچھلے کئی برس سے کیسے ہورہا ہے حالانکہ وہ چار برس حکومت میں رہے اور حکومت سے نکلنے کے بعد اب جب بھی انکی جماعت کا کوئی رہنما گرفتار ہوتا ہے تووہ اسکی بھرپور مذمت کرنے آجاتے ہیں۔
اس کیلئے آئیے ہم آپکو 2018 میں لیے چلتے ہیں جب عمران خان کو اقتدار کے سنگھاسن پربرسوں کی پلاننگ کے بعد براجمان کروایا گیا اورکرسی اقتدار پر بیٹھتے ہی عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کردیا جی ہاں جیل بھرو تحریک۔ لیکن وہ جیل بھرو تحریک عمران خان کی اپنی جماعت کے رہنماوں یا کارکنان کی نہیں بالکہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن رہنماوں اور کارکنان پر مشتمل تھی۔
عمران خان نے جیل بھرو تحریک ضرور چلائی لیکن اس کی تکمیل ن لیگ کے قائد نواز شریف کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوا کر کی، عمران خان نے جیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل مریم نواز کو انکے والد اور بیٹی کے سامنے گرفتار کرکے جیل بھجوا کرکی۔ عمران خان نے جیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو جیل بھجوا کر کی، عمران خان نےجیل بھرو تحریک چلائی لیکن اس کی تکمیل سابق صدر آصف زرداری کو جیل بھجوا کر کی، عمران خان نے جیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کو گرفتار کر کے کی۔ عمران خان نے جیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو جیل بھجوا کر کی۔ عمران خان نے جیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل موجودہ وزیردفاع خواجہ آصف کو جیل بھجوا کر کی۔ عمران خان نے جیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جیل بھجوا کر کی، عمران خان نےجیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل حمزہ شہباز کو جیل بھجوا کر کی، عمران خان نے جیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل راجہ پرویز اشرف، احسن اقبال، حنیف عباسی، خواجہ سعد رفیق، خورشید شاہ اور ان جیسے اپوزیشن کے کئی لیڈران کو جیل بھجوا کر کی۔ عمران خان نے جیل بھرو تحریک چلائی لیکن تکمیل راجہ قمر الاسلام، فواد حسن فواد، احمد چیمہ جیسے لوگوں کو جیل بھجوا کر کی۔
عمران خان کی جیل بھرو تحریک کی تسلی صرف سیاسی رہنماوں کو گرفتار کرے نہیں ہوئی بالکہ اسکے لیے سیاسی کارکنان کو بھی استعمال کیا گیا کیونکہ جیلیں صرف سیاسی رہنماوں کی گرفتاری سے تو نہیں بھرتیں اس کیلئے سیاسی کارکنان کی بھی تو ضرورت ہوتی ہے جسکی مثال سیاسی کارکن صابر ہاشمی اور اس چیسی کئی سیاسی کارکنان ہیں ہیں جن کو بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے جیل میں رکھ کر جیل بھرو تحریک کی خواہش پوری کی گئی۔
عمران خان کی جیل بھرو تحریک کواس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی اور اسی سپورٹ کے بل بوتے پر عمران خان نے جیل بھرو تحریک کو بھرپور انداز میں کامیاب کروایا لیکن اب عمران خان اقتدار کے سنگھاسن سے نکالے جاچکے ہیں اور وہ بیساکھیاں بھی موجود نہیں رہیں جن کے بل بوتے پر جیل بھرو تحریک کامیاب کروائی جارتی رہی۔
ان حالات میں اب جب انکی جماعت کے کچھ رہنما مختلف کیسز میں گرفتار ہوئے اور دوران گرفتاری یا ضمانت کے بعد جب سب نے دیکھا کہ انکا رونا نکل رہا ہوتا ہے اورخصوصا عمران خان جو زخمی ٹانگ کیساتھ پچھلے کئی ماہ سے اپنی رہائشگاہ میں خود کو محصورکیے ہوئے ہیں تو ایسی صورتحال میں ان کی جانب سے جیل بھرو تحریک کا اعلان اپنے سپورٹران کو ما سوائے بیوقوف بنانے اور ٹرک کی ایک نئی بتی کے پیچھے لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں لگتا۔