مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے والوں کو بتانا ہے کہ ابھی چند روز قبل تک پنجاب اور پختونخواہ میں انکی حکومتیں تھیں گلگت بلتستان میں اب بھی انکی حکومت ہے تو پھر مہنگائی کا الزام شہباز شریف پر ڈال کر وہ بری الذمہ کیسے ہوسکتے ہیں یہ بات انہوں نے ملتان میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہی انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئیگا اس ملک میں نہ ڈویلپمنٹ ہوسکتی ہے اور نہ ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔
چیف آرگنائزر ن لیگ نے کہا کہ ووٹ کوعزت دینا ہی پڑیگی کیونکہ ووٹ کو جب 2018 الیکشن میں عزت نہیں دی گئی اور ایک اناڑی کو لاکر ملک کا اور لانے والوں کا جو حال ہوا ہے اس سے سب نے سبق سیکھا ہے کہ ملک کے آگے بڑھنے کا واحد حل ہی ووٹ کو عزت دینے میں ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہم نے الیکشن کی تیاری پورے زور شور سے شروع کری دی ہے چاہے ضمنی انتخابات ہوں یا عام انتخابات ہمیں انکے لیے تیار رہنا ہے انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لینے والے لوگوں کی ایک لمبی لسٹ ہے۔
دوہرے عدالتی معیار کا ذکر کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف پر تو کوئی کیس تھا ہی نہیں لیکن پھر بھی بیٹی کیساتھ ہفتہ میں پانچ سے چھے دن پیشیاں بھگتتا رہادوسری جانب اصل جرائم ہیں جن میں ہیرے جواہرات، فارن فنڈنگ سمیت کئی کیسز ہیں لیکن وہ عدالت ہی نہیں جاتے یہ سہولت نواز شریف مریم نواز اور دیگر کو تو حاصل نہیں تھی۔
ن لیگی رہنما نے کہا کہ سوال کرنا بنتا ہے کہ وہ جس نے جرائم کیے ہوئے ہیں اسے کیوں اجازت دی جارہی ہے کہ وہ جب چاہے عدالت جائے جب چاہے نہ جائے لیکن یقین ہے قانون اپنا راستہ لے گا اور جو جرائم اس نے کیے ہیں اسکی اسکو سزا ملی گی اور ملنی بھی چاہیے ورنہ یکطرفہ انقام کے اثرات ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام نے انصاف کا دوہرا معیار دیکھ لیا ہے کہ ایک معیار نواز شریف ن لیگی لیڈران اوردوسرا لاڈلوں کیلئے تھا جو ناانصافی ڈیم والے بابے اورجسٹس کھوسہ نے کیا اور انکا حشرپوری قوم نے دیکھا ہے عوام میں شعور آگیا ہے کہ انصاف کا معیار سب کیلئے یکساں ہوگا تب ہی ملک آگے بڑھے گا۔
ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ یہ انہوں نے شور ڈالا ہوا ہے انتقام ہورہا ہے تو سن لیں انتقام وہ ہوتا ہے جو رانا ثنا اللہ نے بھگتا میں دو دفعہ سزائے موت کi چکی میں قید رہ کر آئی نواز شریف نے جیل بھگتی دیگر لیڈران نے جیل کاٹی اور انکے ساتھ تو ابھی ہوا ہی کچھ نہیں اور انہوں نے رونا شروع کردیا ہے۔
سینئر نائب صدر ن لیگ نے کہا کہ ایک انتقام ہوتا ہے ایک اپنے جرائم کی جواب دہی ہوتی ہے جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا وہ انتقام تھا ایک شخص کھڑا ہوکر حکومتی عہدیداروں اور اداروں کے لوگوں کو دھمکیاں دیتا ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے خاندان کو نہیں چھوڑیں گے تو کیا اسے اسلئے چھوڑ دیا جائے کہ وہ سیاستدان ہے۔
عمران خان کے جیل بھرو تحریک کے اعلان بارے بات کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ جیل بھرو تحریک کا آغاز زمان پارک سے ہونا چاہیے وہ جو زمان پارک میں چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں انکو چاہیے کہ انہوں نے جو فرسٹ لائن آف ڈیفنس میں خواتین کو رکھا ہوا انکو ہٹائیں آئیں جیل میں جائیں تاکہ آپکو بھی پتہ چلے کہ جیل کیا ہوتی ہے ڈیتھ سیل کیا ہوتا ہے۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ وہ جس نے عدالت میں جھوٹ بولااپنے بچے چھپائے کیا اسلئے چھوڑ دیا جائےوہ سیاستدان ہے وہ جس نے گھڑیاں چوری کرکے بیچا اور بیچ کر پیسوں کی منی لانڈرنگ کی تو کیا اسےچھوڑ دیا جائے وہ جماعت کا سربراہ ہے وہ جس نےفارن فنڈنگ منی لانڈرنگ کی کیا اسےچھوڑ دیا جائے وہ سیاستدان ہے۔
یوتھ کے بارے بات کرتے ہوئے مریم نوازکا کہنا تھا کہ اس ملک میں بڑا پوٹینشل ہے یوتھ کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع نہیں چاہتی ہوں وہ اعلی تعلیم حاصل کریں لیکن اسکے بعد وہ باہرنہ جائیں انہیں مواقع پاکستان میں ملنے چاہییں ایسے پروگرامز ہوں تاکہ یوتھ اپنا کام شروع کریں حکومت انکا ہاتھ پکڑے سیلیکون ویلی پاکستان میں بننی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ یہ سیاسی جماعت تو ہے ہی نہیں یہ تو جنرل فیض کے لائے ہوئے لوگ تھے انکی چھتر چھایہ میں یہ لوگ پل رہے تھے اور اب جب سے بے فیض ہوئے ہیں تو انکو سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔
ن لیگ کے رہنماوں کے ساتھ روا رکھے سلوک بارے بات کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ہماری جماعت کے لیڈران کو پکڑا گیا انہں نے تکلیفیں برداشت کیں انتقام جبر کا سامنا کیا لیکن ڈٹ کر جیلیں کاٹیں ہماری تو ضمانتیں نہیں ہوتی تھیں بنچ ٹوٹ جاتے تھے ہم نہیں روئے لیکن ادھر تو دو دن کی جیل کے بعد یہ رونا شروع کردیتے ہیں وجہ یہ ہے کہ یہ تو سیاسی لوگ ہی نہیں۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ مجھے ڈیتھ سیل میں رکھا گیا جس میں صرف ایک چارپائی تھی اور باتھ روم بھی اسکے اندر تھا پچاس ڈگری کی گرمی میں میں اس ڈیتھ سیل میں رہی لیکن میں نہیں روئی نہ کبھی میڈیا کے سامنے نہ کبھی اپنے سیل میں کیونکہ ایک جذبہ تھا عوام کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو پرویز مشرف نے اٹک قلعہ میں گرفتار کرکے پھینک دیا ان کے ہاتھ جہاز کی سیٹ کیساتھ باندھ کر لے جایا گیا لیکن وہ نہیں روئے اٹک قلعہ میں جیل کاٹی وہ نہیں روئے پھر 2018 میں جیل کاٹی وہ نہیں روئے لیکن یہ تو دو دن میں ہی روپڑتے ہیں۔