آج مختلف صحافیوں اور سیاستدانوں کی گرفتاری پر ہمارے پی ٹی آئ کے دوست بہت تلملا رہے ہیں۔ اور پی ٹی آئ کے حامی صحافی اسے ظلم جبر اور انتقامی کارروائ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ کوئ بھی ذی شعور شخص مخالفین کے خلاف اسطرح کے اقدامات کی حمایت نہیں کرسکتا ۔ ہم کل بھی اس کے خلاف تھے آج بھی۔
ملک کے طول و عرض میں پھیلے یہ تاریک اور منحوس سائے چار سال پرانے ہیں جو مزید گہرے اور دراز ہوتے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئ کا چار سالہ دور جبرو استبداد ، ظلم و بربریت اور سیاسی گھٹن پر مشتمل تھا۔ مسلم لیگ ن کے درجنوں رہنمائوں کو من گھڑت، جھوٹے اور گمراہ کن مقدمات میں پھنسا کر تذلیل انداز میں عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ریا۔ کئ کئ مہینے بغیر ریفرنس کے نیب کے عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
ہر آزاد منش آواز کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئ ۔پھر وہ چاہے عدالت سے ہو صحافت سے یا سیاست سے۔ کئ صحافیوں کی آوازیں خاموش کرنے کے لئے انکے جسموں میں بارود گھسایا گیا۔ ہڈی پسلیاں اور بازو تک توڑ دئیے گئے۔ عرفان صدیقی جیسے بزرگ صحافی کے گھر پہ دھاوا بولا گیا اور اسے گھسیٹ کر ذلت آمیز انداز میں ہتھکڑی میں عدالت لایا گیا ۔ جرم کیا تھا کہ اپنے گھر کا کرایہ نامہ جمع نہ کروایا۔
پھبتیاں کستے تھے کہ کل فلاں کی باری ہوگی تو پرسوں فلاں کی۔ ۔محترم خان صاحب سینہ تان کر اور بڑے ہی فخریہ انداز میں بھرے جلسوں میں اس سب کا کریڈٹ بھی لیتے تھے اور اعتراف بھی کرتے تھے۔
یہ سب کوئ نیا اور اجنبی نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو وہ فصل ہے جو انھوں نے خود بوئ ہے سو کاٹ رہے ہیں۔ یہ وہ کانٹے ہیں جو انھوں نے اپنے مخالفین کے راستوں میں بچھائے تھے اب پلکوں سے چننے پڑ رہے ہیں۔ یہ مکافات عمل ہے ۔ یہ قرض ہے جو آپکو لوٹانا ہی ہوگا۔
مگر کب تک۔ کب تک یہ نفرت اور انتقام پہ مبنی سلسلہ چلتا رہے گا۔ کب تک جمہوریت کا پرچار کرنے والی سیاسی جماعتیں غیر جمہوری قوتوں کی آلہ کار بن کر ایک دوسرے کو غدار، کرپٹ اور چور قرار دے کر ایک دوسرے کو لتاڑتی رہیں گی۔وقت آگیا ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں ۔ بردباری اور تحمل و تدبر سے مخالف کے وجود کو تسلیم کریں اور ان اوچھے ہتھکنڈوں سے باز آجائیں۔ ایک دوسرے کا مقابلہ سیاسی میدان میں کریں۔ سیاستدانوں کا اکھاڑ صرف سیاست اور الیکشن ہی ہونا چاہئیے۔