وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کیساتھ باہمی اتفاق رائے سے معاملات طے پاگئے ہیں یہ بات اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جس معاہدہ پر عمل درآمد اور مکمل کرنے کیلئے موجودہ حکومت پوری تگ و دو کررہی ہے سب کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ 2019 میں یہ معاہدہ عمران خان حکومت نے کیا تھا اور پھر اسی تحریک انصاف حکومت کے سربراہ عمران خان نے جب اپنی کرسی جاتی دیکھی تونہ صرف اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی بالکہ جاتے جاتے اسکی خلاف ورزی بھی کردی جس کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ایم ایف سے معاہدہ میں مشکلات کی سب سے بنیادی وجہ تحریک انصاف حکومت کی معاہدہ کی خلاف ورزی تھی انہوں نے نہ صرف معاہدہ کو توڑا بالکہ جاتے جاتے اس معاہدہ کو توڑ بھی دیا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کو پاکستان پر اعتبار نہیں رہا تھا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ جو کچھ اس ملک کی معیشت کیساتھ پچھلے چند برس میں کیا گیا معاشی تباہی کی گئی جسکی وجہ سے مہنگائی کا طوفان کھڑا ہوگیا اس سب کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملکی معیشت کو مس ہینڈل کیا اب وقت آگیا ہے اسکو فکس کیاجائے یہ ریفارمز تکلیف دہ ہیں لیکن انکو اب کرنا ہوگا۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد170 ارب کے نئے ٹیکسز لگانے پڑینگے اور ہماری پوری کوشش ہے کہ غریب عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہ لگے۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ پٹرولیم پر آئی ایم ایف نے پچاس روپے کی جو لیوی لگانے کا کہا تھا وہ ہم پوری کرچکے ہیں اور ڈیزل پر بھی پچاس میں سے چالیس روپے تک پوری ہوچکی ہے۔
وزیرخزانہ نے اس موقع پر بتایا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں چالیس ارب کا اضافہ کیا جارہا ہے تاکہ مہنگائی کیوجہ سے غریب جو مشکلات کا شکار ہیں انکی مشکلات میں کمی آسکے۔
اس موقع پر وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے پروگرام اب فائنل ہونے کے بعد دوست ممالک سے بھی پاکستان کو پیسے آئینگے پاکستان کے پاس اپنے استعمال کیلئے ریزروز موجود ہیں انہوں نے مزید کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس نہیں لگایا جارہا اور آئی ایم ایف بھی اس پر متفق ہوگیا ہے۔
اسحاق ڈٓار نے اس موقع پر کہا کہ جو کہہ رہے ہیں پاکستان ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے وہ ملک کی کوئی خدمت نہیں کر رہے اس بات سے شاید انکے بیان کو تو کچھ مقبولیت مل جائے لیکن ملک کو اس سے نقصان ہوتا ہے ایسی باتیں کرنیوالوں کو ملک کا پہلے سوچنا چاہیے۔