ٹھیک ھی کہا تھا کہ دو پاکستان ہیں۔
اگر عمران خان، فواد چودھری، شیخ رشید، جمشید چیمہ، اور شہباز گل جیسے لوگوں کے ساتھ پی ٹی آئی کی سیاست کو لےکر نا اہلی جھوٹ بہتان طرازی الزامات اور گالم گلوچ کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔
تو دوسری طرف نواز شریف آصف علی زرداری اسفندیار ولی خان اور منظور پشتین (بعض تحفظات کے باوجود بھی لیکن کم از کم توشہ خانہ فارن فنڈنگ ملک ریاض فرح گوگی اور ھیرے کی انگوٹھی وغیرہ کے بعد ان سیاست دانوں کو کرپٹ کہنا صرف ایک احمق ھجوم کا بے معنی سیاسی اثاثہ رہ گیا ھے) شاھد خاقان عباسی رضا ربانی غلام احمد بلور اور علی وزیر جیسے باوقار اور قابل ستائش سیاسی تاریخ کے حامل ساتھیوں کے ساتھ سیاسی میدان میں موجود ہیں۔
جن کے رویئے اور کردار اس شیخ رشید اور شہباز گل کی متضاد سمت میں ہیں جن کے پاس اپنی تعفن پھیلاتی زبانوں کے علاوہ کوئی سیاسی اثاثہ ھی نہیں۔
اگر ایک طرف فواد چودھری شیخ رشید اور شہباز گل دو دن کی جیل گزار کر روتے روتے ہلکان ہو جاتےہیں۔
تو دوسری طرف شاھد خاقان عباسی جج کے سامنے کھڑے ہو کر یہ “استدعا ” کرتا دکھائی دیتا ہے کہ می لارڈ نیب کو میرا دس دن کی بجائے نوے دن کا ریمانڈ دے دیں تاکہ میں اپنے اوپر لگے الزام اور اپنی کارکردگی کے بارے ان کو سمجھا سکوں۔
ایک اور اسیر علی وزیر دو سال بد ترین ریاستی جبر کا سامنا کرتے ہوئے جیل سے نکلتا ھے تو نہ فتح کا نشان بناتے دکھائی دیتا ہے اور نہ ھی نیلسن مینڈیلا بننے کی دعویداری کرتا ھے۔
بلکہ ایک معصوم مسکراہٹ ھی اس کی حق گوئی اور دلیری کی شہادت فراہم کرتا ھے۔
اگر ایک طرف ثاقب نثار سے آڈیو زدہ غلاظت بھری عدالتی تاریخ کے جبڑوں سے انصاف کا خون رستا دکھائی دیتا ہے۔
تو دوسری طرف محترم جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم جسٹس فائز عیسی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسے سربلند منصف حرص کرم اور خوف خمیازہ کو اپنے پاوں کی ٹھوکر پر رکھتے ہوئے گھپ اندھیرے میں بھی انصاف کا مشعل بلند کرتے ہوئے اپنے اپنے حصے کی شمع جلا دیتے ہیں۔
اگر ماضی قریب میں عسکری منطقوں سے اس ملک کو برباد کرنے اور اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیلنے کے لئے قابل احترام اداروں کو متنازعہ بنانے والے قمر باجوہ اور فیض حمید جیسے کردار برآمد ہوئے۔
تو دوسری طرف جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد جیسے انتہائی پروفیشنل اور آئین و قانون کا احترام کرنے والے حد درجہ ذمہ دار لوگ بھی اسی منطقے کی شناخت لئے اہم منصبوں پر تعینات ہوئے جو نہ توصبح و شام سیاسی بارگیننگ میں مصروف ہوتے ہیں نہ معیشت پر بے سر و پا لیکچر جھاڑتے ہیں اور نہ ھی پیسے کی فراوانی کی خاطر اپنے حلف اور ضمیر سے منہ موڑتے ہیں۔
اگر ایک طرف اپنے فارم ھاوسز لینڈ کروزر گاڑیوں یوٹیوب چینلوں بڑی بڑی تنخواہوں اور لگژری لائف سٹائل کےلئے صحافت کا لبادہ اوڑھے وارداتیئے اپنے بچوں کے مستقبل سنوارتے اور دوسروں کے بچوں کو گمراہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
تو دوسری طرف سینوں پر گولیاں کھاتے قید و بند کاٹتے اغواء ہوتے حملوں کی دھمکیاں برداشت کرتے اور مشکل مالی حالات اور بے روزگار یاں سہتے وہ جینوئن صحافی بھی انتہائی مشکل شب و روز اور ناسازگار موسموں میں سچائی کا علم ایک حوصلہ مند جوانمردی کے ساتھ لہراتے نظر آئے۔
ان صحافیوں کو داد دینی پڑے گی کہ بدنام زمانہ ھائبرڈ ریجیم کی تخلیق کردہ جاہلیت کی کراہت بھری بدزبانی الزامات اور ماں بہن کی گالیوں سے توجہ ہٹنے یا پسپا ہونے اور میدان چھوڑنے کی بجائے ایک دلربا دلیری کے ساتھ اپنی حق گوئی اور سچائی کےلئے ڈٹتے اور لڑتے نظر آئے۔
اگر ایک طرف وہ زومبیز “سیاسی کارکن” بن کر سامنے آئے جو نہ صرف جھوٹ مکاری اور یوٹرنز پر سوال اٹھانے اور گرفت کرنے کی صلاحیت اور استطاعت سے محروم ہیں۔
بلکہ “میری امی خان صاحب سے شادی کرنا چاہتی ہیں اور میرے ابو کو کوئی اعتراض نہیں۔ پولیس مارے گی تو انقلاب کیسے آئے گا اور میں چاہتی ہوں کہ عمران خان میرے بیڈ روم میں آئیں”؟
جیسی “سیاسی سوچ اور ” ذہنی پختگی ” کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
تو دوسری طرف ریاستی جبر مقدمات اور قید و بند کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جدوجہد اور نظریات پر ڈٹے ہوئے حال ہی میں فوت ہونے والے عصمی ملک مرحوم صابر محمود ہاشمی اور مدثر نزیر جیسے غضب کے سیاسی کارکن زھر باد ہواوں میں بھی جمہوری نظریئے کا علم لہراتے دکھائی دیئے۔
اگر ایک طرف اعتراز احسن بابر اعوان اظہر صدیق اور فیصل چودھری جیسے وکلاء ہیں جو صبح و شام عدالتی کٹہروں اور میڈیائی راہداریوں میں سود و زیاں تولتے ہوئے آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
تو دوسری طرف علی احمد کرد اور اس جیسے بہت سے جیداروں نے جمہوریت کی سربلندی اور قانون کی یکساں عملداری کی خاطر اپنی گریبانوں کو چاک بھی کیا اور اسے پرچم بھی بنا ڈالا۔
اور ہاں یاد آیا کہ ایک طرف ایک سیاستدان یہ بھی ھے جس نے ایک عرصے سے پاوں پر پلستر چڑھا رکھا ھے اور اس کے گھر سے شام ڈھلتے ھی پیہم اعلانات ہونے لگتے ہیں کہ جلدی جلدی پہنچو پولیس گرفتار کرنے آ رھی ھے۔
تو دوسری طرف ایک سیاستدان وہ بھی تھا جس نے انتہائی مشکل حالات میں بھی لندن کو جائے پناہ بنانے کی بجائے آخری سانسیں لیتی اپنی محبوب اہلیہ کی پیشانی پر آخری بوسہ دیا اور جیل جانے کےلئے لاہور کی پہلی فلائٹ پکڑ لی۔