آج خان صاحب اپنے مختلف انٹرویوز میں اور صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں اس بات کا بنانگ دہل اعتراف کرریے ہیں کہ بطور وزیراعظم انکا چار سالہ دور بے بسی کا دور تھا ۔ وہ یہ بات مان رہے ہیں کہ انکا عہدہ ایک نمائشی عہدہ تھا اور انکی حیثیت اور اوقات ایک کٹھپتلی سے زیادہ نہیں تھی۔ انکا ہر فعل ہر کام ہر قدم اپنے مالک کے اشارے کا محتاج تھا۔ وہ ایک بااختیار وزیراعظم نہیں تھے بلکہ طاقتور حلقوں کے ایک مہرہ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔
خان صاحب کا یہ اعتراف کہ باجوہ صاحب اصل میں سپر کنگ اور وہ خود بطور وزیراعظم انکے ماتحت اور فرمانبردا رہ کرکام کرتے رہے ہیں اصل میں ہمارے اس موقف کو بھرہور تقویت دیتا ہے کہ خان صاحب کی اپنی کوئ سیاسی حیثیت تھی ہی نہیں۔
بغض نواز میں طاقتور حلقوں نے خان صاحب جیسے ایک کھلنڈرے غیر سنجیدہ اور لاابالے شخص کو مارکیٹ میں لانچ کیا۔ ایک پھلتے پھولتے ترقی کرتے اور سربز و شاداب پاکستان پر ایک ایسے نالائق منقم مزاج شخص کو مسلط کردیا گیا جسکی اپنی کوئ حیثیت اور کوئ مانڈ سیٹ تھا ہی نہیں اور وہ چار سال اپنے آقاوں کے اشاروں پہ ناچتا رہا۔ ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور ملکی معیشت کو بربادی کے اس دہانے پہ لاکھڑا کیا کہ آج لاکھ کوششوں کے باوجود معیشت کے سنبھلنے کی کوئ امید نظر نہیں آرہی ہے۔
2011 تک خان صاحب کی سیاسی جماعت کا حجم اتنا تھا کہ باآسانی سے ایک تانگہ میں سماسکتی تھی ۔ 1996 میں لانچ کی جانے والی پارٹی 15 سال تک اپناایک ممبر قومی اسمبلی منتخب نہ کراسکی۔ 2002 کے انتخابات میں جنرل مشرف کی مہربانیوں سے خان صاحب پہلی بار اکیلے اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے ہیں۔
جنرل پاشا کھلم کھلا سیاسی پارٹیوں میں نقب زنی کرتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے الیکٹیبیلز کو بلیک میل کرکے انکو توڑا جاتا ہے اور پھر ہانکا لگا کر خان صاحب کا ہمنوا بنادیا جاتا ہے۔ خان صاحب کا خوبصورت بت تراشا جاتا ہے۔ اسکی نوک پلک سنوارنے کے لئے دن رات ایک کر دی جاتی ہے۔ باقاعدہ ایک منظم مہم کے تحت تمام ریاستی وسائل خان صاحب کی مقبولیت کےلئے اور عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے جھونک دئیے جاتے ہیں۔
پرنٹ میڈیا الیکٹرک میڈیا اور سوشل میڈیا کو وسیع پیمانے پر صرف ایک کام پہ لگایاجا ہے باقی تمام سیاستدانوں اور پارٹیوں کو لتاڑ دو انکے من گھڑت کرپشن کے قصے اور جھوٹی کہانیاں گھڑ گھڑ کر عوام کے کانوں میں تھونستے رہو۔ سب کی خوب مٹی پلید کرو۔ خان صاحب کے بے جان بت کو ایک مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پر بھوکی ننگی اور جاہل قوم کے سامنے پیش کردیا گیا۔
خان صاحب کی ایمانداری اور دیانتداری ثابت کرنے کے لئے میڈیا میں بیٹھے ہزاروں ہرکارے گلا پھاڑ پھاڑ کر انکی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھتے رہے اور عوام کو جھوٹے اور بے بنیاد خواب دکھاتے رہے۔
اس دوران مقبول سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرکے انھیں کمزور کیا گیا ان کے کئ مقبول رہنمائوں کو ڈرا دھمکا کر خوف زدہ کرکے اور لالچ دے کر خان صاحب کے لشکر میں کھڑا کردیا گیا۔ یہاں تک کہ 2013 کے عام انتخابات میں خان صاحب کے اس تراشے ہوئے بت میں روح پھونک کر اسے سیاسی میدان میں اتاردیاگیا۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں خان صاحب کو کوئ قابل ذکر کامیابی نہ مل سکی مگر کے پی میں انکی پہلی حکومت قائم ہوگئی۔ خان صاحب کے سیاسی تخلیق کار اور اسکے مالکان سکون سے نہ بیٹھے اور پھر 2014 میں ایک منتخب کردہ جمہوری حکومت کے خلاف ایک باقاعدہ سازش لندن میں تیار کی گئ۔ خان صاحب کو ایک مہرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملک کے دارالحکومت میں سرکس سجا دیا گیا۔ کئ مہینوں تک اپنے آقاوں کی سرپرستی میں دارالحکومت کو یرغمال بنائے رکھا۔ ایک ایٹمی ملک کے دارلحکومت کی سانسیں روکنے کی ناکام کوشش کی گئ۔
سازشوں کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور بدبودار کھیل چلتا رہا آخر پھلتے پھولتے اور سرسبزوشاداب پاکستان کی ترقی کو بریکیں لگانے کےلئے ملک کے وزیر اعظم کے خلاف ایک بے بنیاد من گھڑت اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے اسے ایک عدالتی حکم کے ذریعے نااہل کرکے حکومت سے نکال دیا گیا۔ اس کھناونے کھیل میں اس وقت کا عدالتی مسخرہ ثاقب نثار پیش پیش تھا۔ یہ سارے گندے جرائم اور تمام تر سازشیں اصل میں میاں صاحب کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف تھیں۔
2018 میں مسلل عدالتی فیصلوں کے ذریعے ن لیگ کے کئ بڑے رہنماوں کو بشمول نواز شریف کے جھوٹی سزائیں سنائی گئیں اور الیکشن کے اکھاڑے سے باہر کردیا گیا ۔ یوں ایک نا لائق مہرہ ملک پہ مسلط کردیا گیا ۔ پھر اسکی حکومت بنانے میں چلانے میں اور قائم رکھنے میں اس کٹھپتلی کا ہر طرح کا ساتھ دیا گیا۔
کاش خان صاحب ادھورے سچ کی بجائے پورا سچ عوام کے سامنے رکھتے اور عوام کو یہ بتاتے کہ کسطرح اور کونسے ہتھ کنڈوں کے ذریعے اسے مہرے کے طور استعمال کرکے ایک جمہوری حکومت کے خلاف سازشیں رچائ گئیں اور پھر اسے حکومت سونپ کر ملک پہ مسلط کردیا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خان صاحب اپنی حرکتوں کا اعتراف کرکے عوام سے معافی مانگ لیتے۔