وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ نے ہمارے اجلاس کی کارروائی کا ریکارڈ مانگا ہے، ہم عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، ہماری کارروائی خفیہ نہیں ہوتی بلکہ ہماری ہر بات کو براہِ راست سنا جاتا ہے۔ کیا ہمیں سپریم کورٹ کے اجلاس کی کارروائی مل سکتی ہے کہ کس جج نے کیس سننے سے انکار کیا؟ خواجہ آصف نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ آپ سپریم کورٹ کو خط لکھ کر ججز کے اجلاس کا ریکارڈ مانگیں۔
خواجہ آصف نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مذاکرات کا کہنے والے پہلے اپنی پنچایت لگا کر مسئلہ حل کریں۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ پنچایتیں کرائیں گے۔ آئین عدلیہ کو پنچایت یا مذاکرات کی ہدایات دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ ڈیم فنڈ مانگنے والوں نے قوم کو ڈیم فول بنایا، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ چیف جسٹس ڈیم بنائے؟
قومی اسمبلی سے جارحانہ انداز میں کیے گئے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ وزرائے اعظم کی گردنیں لینے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنے وزیراعظم کا تحفظ کرنا چاہیے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو۔ وہ وقت چلا گیا جب وزیراعظم کو بلی چڑھایا جاتا تھا۔ اب پارلیمنٹ ہتھیار نہیں ڈالے گی، اب پارلیمنٹ اپنے وزیراعظم کی گردن نہیں اڑانے دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ارکانِ اسمبلی سے زیادہ کسی نے پاکستان کی خدمت نہیں کی مگر بار بار پارلیمنٹ کی گردن لی گئی اور ہمارے مینڈیٹ پر سوال اٹھائے گئے، بار بار جموریت کا خون کیا گیا اور ہمیں گھر بھیجا گیا، کیا کوئی حساب دے گا؟ ایک ادارہ چاہتا ہے کہ یہ اسمبلی مدت پوری نہ کرے، پارلیمنٹ آئین کی محافظ ہے اور کوئی بھی چیز آئین سے ماورا نہیں ہے، اگر جنگ لڑنی ہے تو پارلیمنٹ تیار ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ 1999 میں پرویز مشرف نے اقتدار کیلئے آئین توڑا اور پھر 10سال تک وردی میں مکے لہراتا رہا، یہاں ڈکٹیٹرز کو آئین توڑنے اور آئین میں ترمیم کا بھی اختیار دیا گیا۔ ہم نے ڈکٹیٹرز کا ساتھ دیا اور اس کی قیمت ادا کی لیکن کیا کبھی عدلیہ نے ڈکٹیٹرز کا ساتھ دینے کی قیمت ادا کی؟ ان پر مقدمہ چلایا جائے، جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے ان پر بھی مقدمہ چلایا جائے۔
وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ یومِ حساب آنا چاہیے، عدلیہ کو حساب دینا چاہیے۔ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور نواز شریف کی نااہلی کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور عدلیہ سے ان مظالم کا حساب مانگنا چاہیے۔ اس عدلیہ میں ایک کروڑ 20 لاکھ روپے رشوت لینے والے موجود ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پارلیمنٹ اب عمران خان کیلئے سہولت کاری کرنے والوں کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تنخواہ ایک لاکھ 68 ہزار روپے ہے اور ہم نے بار بار حساب دیا ہے، اب ہمیں بھی حساب دیا جائے اور بتایا جائے کہ ان کی تنخواہ کتنی ہے اور انہیں کتنی گاڑیاں اور کتنے پلاٹس ملتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ مجھے اور میرے والد کو اسمبلیوں میں 72 سال ہو گئے مگر آج تک ایک پلاٹ نہیں لیا۔
خواجہ آصف نے اسپیکر سے کئی مرتبہ درخواست کی کہ اس ایوان کی کمیٹی بنائے جائے اور وہ تمام ججز جو اس دنیا میں ہیں اور وہ بھی جو اس دنیا سے جاچکے ہیں ان سب کا ٹرائل کیا جائے تاکہ سب کو پتہ چلے انہوں نے آج تک کیا کیا گل کھلائے ہیں۔