تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ایک نجی نیوز چینل کے صحافی کو انٹرویو دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن ہوں گے مگر ہمیں الیکشن نہیں مل رہے۔ ہم نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں اس لیے تحلیل کیں کہ ہمارے پاس صرف ایک فرد کی اکثریت تھی اور تحریکِ عدم اعتماد کا ڈر رہتا تھا اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم عوام کے پاس جائیں گے۔ سب سے بڑا جرم یہ ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے پلاننگ کے ساتھ الیکشن میں تاخیر کی ہے اور سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ان دو جماعتوں کا ساتھ دے رہی ہے جن کا سب کچھ ملک سے باہر پڑا ہے۔ ہمیں الیکشن نہیں مل رہا اور بتایا جا رہا ہے کہ الیکشن اکتوبر تک جائے گا اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دونوں جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ چاہتے ہیں کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکے۔ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہو رہا۔
چیئرمین تحریکِ انصاف کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک بھارت شدت پسندی پر یقین رکھتا ہے اس لیے ہمیں فوج کی ضرورت ہے لیکن اگر پاکستان میں مارشل لاء لگایا گیا تو فوج تباہ ہو جائے گی کیونکہ جنرل باجوہ نے انھی لوگوں کو اقتدار میں بٹھا دیا جن کے متعلق فوج اور آئی ایس آئی مشرف دور سے کہہ رہی ہے کہ یہ لوگ چور ہیں۔ جنہیں چور کہا، انھی کو مسلط کرنے سے فوج کا امیج خراب ہوا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ضیاء الحق نے پہنچایا جس نے نواز شریف کو وزیرِ اعلیٰ اور پھر وزیراعظم بنا دیا۔ اربوں کی کرپشن کی گئی، آرمی چیف آصف نواز کو مری میں اس کے گھر جا کر BMW دی گئی، نواز شریف کو لیڈر بنانے کی کوشش میں پورا ملک تباہ کر دیا گیا۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے مجرموں کو اٹھا کر پولیس اور دیگر اداروں میں بٹھا دیا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ریاست ایک بنانا ریپبلک بن جاتی ہے۔ محسن نقوی نے مسلم لیگ نواز کی مدد کی اور دھاندلی کروائی۔ ہمیں جنرل باجوہ نے محسن نقوی کا نام دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ بندہ ٹھیک ہے۔ انہوں نے EVM مشینز کو ختم کیا کیونکہ اس سے دھاندلی نہیں ہو سکتی اور اس سب کے پیچھے جنرل باجوہ تھا۔ پنجاب میں جرائم پیشہ افراد کو اٹھا کر بڑے عہدوں پر بٹھا دیا گیا۔
عمران خان نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ اوپر طاقتور لوگوں کو کرپشن کی اجازت دے دیتے ہیں تو پھر نیچے کرپشن کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے میرٹ کی بجائے کرپشن کی بنیاد پر لوگوں کو عہدے دیئے کیونکہ انہیں کرپشن کیلئے ایسے ہی لوگ چاہئیں تھے۔ ان لوگوں نے منی لانڈرنگ کیلئے نظام کو نقصان پہنچایا۔ جن لوگوں نے 30 برس تک پاکستان کو نقصان پہنچایا، جنرل باجوہ نے انھی کو دوبارہ حکومت میں بٹھا دیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری ختم ہو گئی ہے جبکہ سرمایہ کاری کے بغیر ملک کی دولت میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ جب ایک انویسٹر دیکھے گا کہ پاکستان میں حکومت سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مان رہی تو وہ کیسے یہاں انویسٹ کرے گا؟ ہر طرف رشوت دی اور لی جا رہی ہے، جس ملک میں انصاف نہیں ہوتا وہاں کبھی ترقی نہیں ہو سکتی،کبھی لاہور پیرس یا ایشین ٹائیگر نہیں بن سکتا۔ دنیا میں قانون کی حکمرانی میں ڈنمارک پہلے جبکہ پاکستان 140 ممالک میں سے 129 نمبر پر ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ گرنے سے پہلے جنرل باجوہ سے میری دو ملاقاتیں ہوئیں جن میں جنرل باجوہ نے کہا کہ میں الیکشن کروا دوں گا، الیکشن کی بات کر کے جنرل باجوہ نے ہمیں لال بتی کے پیچھے لگا دیا اور ہم نے اس کی بات پر یقین کر لیا حالانکہ یہ سب لوگ ملے ہوئے تھے اور اب سب الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ ہم نے پنجاب اسمبلی اس لیے توڑی کیونکہ ہم ڈیلیور نہیں کر پا رہے تھے اور لوگ ہمیں مہنگائی کا ذمہ دار سمجھتے تھے جبکہ ہمارا مہنگائی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ ہمارے دور میں ہم نے ہر شعبہ میں اپنے ٹارگٹس حاصل کیے مگر پھر جنرل باجوہ نے ہمیں گرا کر ملک کو نقصان پہنچایا۔
عمران خان نے دورہ روس کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات میں پیٹرول پر بات ہوئی تو اس نے مجھے مدد کی یقین دہانی کروائی اور پھر اس نے پیٹرولیم کے وزیر کو بھیجا اور حماد اظہر سے ملاقات کروائی۔ ہم پاکستان واپس آئے تو تحریکِ عدم اعتماد سامنے آ گئی اور سب کچھ فریز ہو گیا، پھر جنرل باجوہ نے اصولوں سے انحراف کیا۔ ہمارے روس جانے سے امریکہ ناراض ہوا حالانکہ مجھے روس جانے سے پہلے روس اور یوکرین کی جنگ کے بارے میں علم نہیں تھا۔ میں نے روس جانے سے پہلے جنرل باجوہ کو فون کال پر پوچھا کہ کیا مجھے روس جانا چاہیے تو جنرل باجوہ نے کہا کہ ہاں ضرور جانا چاہیے۔ جنرل باجوہ نے مجھے روس بھیج کر امریکہ کو بتایا کہ روس جانے کا فیصلہ عمران خان کا اپنا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کی مبینہ طور پر لیک دستاویزات کے متعلق بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت آزاد خارجہ پالیسی بنا ہی نہیں سکتی جبکہ بھارت ایک خودمختار قوم ہے اور وہ اپنے عوام کی خوشحالی کیلئے آزاد خارجہ پالیسی چلا رہا ہے۔ بھارت امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود روس اور یوکرین کے معاملہ پر خاموش تھا جبکہ باجوہ نے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے روس کے خلاف بیان دے کر ہمیں نقصان پہنچایا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لوگ مجھے مرشد کہتے ہیں، میں نے بشریٰ بی بی کو مرشد نہیں کہا بلکہ میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا کیونکہ خاتون مرشد نہیں ہو سکتی اور ہم کسی خاتون کی بیعت نہیں کر سکتے ورنہ مجھے بشریٰ کے علاوہ زندگی میں کبھی کوئی ایسا انسان نہیں ملا جس کی ساری زندگی قرآن و سنت کے عین مطابق ہو، بشریٰ نے 6 ماہ ایک کمرے میں تنہا گزار دیئے اور وہاں ایک دفعہ بھی کھانے پینے اور شاپنگ کا مطالبہ نہیں کیا۔ بشریٰ جس مقام پر ہیں وہاں یہ لوگ پہنچ ہی نہیں سکتے۔ مجھ پر بہت مشکل وقت آیا، سیاست میں بھی مشکل وقت آیا اور جب گولیاں لگیں تب بھی میں اپنی بیوی کے بغیر ان حالات کا سامنا نہیں کر سکتا تھا۔
عمران خان نے ایک بار پھر سابق آرمی کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ جنرل باجوہ ایکسٹینشن سے پہلے کچھ اور تھا مگر پھر ایکسٹینشن کے بعد بالکل مختلف نظر آیا اور اچانک اس کو مسلم لیگ نواز سے عشق ہو گیا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جنرل باجوہ نے اچانک احتساب کا عمل روک دیا حالانکہ وہ تمام کیسز ہم نے نہیں بنائے تھے۔ نیب کو جنرل باجوہ کنٹرول کر رہے تھے۔ پاکستان قانون کی حکمرانی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ یہاں طاقتور لوگ قانون سے اوپر ہیں، یہاں تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی نہیں مانا جاتا۔ دو تہائی اکثریت کے بغیر یہاں حکومت نہیں کی جا سکتی، میں نے دو تہائی اکثریت کے بغیر اس لیے حکومت قبول کی تھی کیونکہ باجوہ ہمارے ساتھ تھا حالانکہ مجھے اب معلوم ہوا کہ انہوں نے ہماری سیٹیں کم کی تھیں۔ یہ چاہتے ہی یہی تھے کہ عمران خان کو ایک ایسی حکومت دی جائے جس میں عمران خان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہوں۔
چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ پاکستان اب بدل چکا ہے، اب پاکستان میں سیاسی شعور آ گیا ہے، اب نوجوانوں کے پاس جو معلومات آ گئی ہیں یہ لوگ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ میں وہی مظالم ڈھا رہی ہے جو کبھی ایم کیو ایم کراچی میں کیا کرتی تھی۔ سپریم کورٹ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ فیصلے پر عملدرآمد ہو گا یا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کو صرف آئین کے مطابق 90 دن میں الیکشن کا فیصلہ کرنا چاہیے، پھر عوام خود اس فیصلے پر عمل کروا لیں گے۔ اگر 14 مئی کو الیکشن نہ کروایا گیا تو میں سڑکوں پر نکلوں گا اور ایک تحریک چلاؤں گا کیونکہ آئین کے بغیر ملک تباہ ہو جاتا ہے۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو سب سے زیادہ جانتے ہیں اور میں گارنٹی دیتا ہوں کہ میں ان سے اربوں ڈالرز پاکستان میں لاؤں گا کیونکہ 6 ارب ڈالرز تو ہمارے گھٹنوں پر پڑے ہوئے ہیں۔