یہ کسی فلم کے ڈائیلاگز نہیں ہیں، یہ گفتگو ہے پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی، ایم پی اے کے ٹکٹ کے ایک امیدوار سےہیں۔ یہ امیدوار پنجاب اسمبلی کے لیے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کا خواہش مند تھا۔ امیدوار کو ٹکٹ دلانے کی کوشش ثاقب نثار صاحب نے کی، ان کے ہونہار سپوت اب اس کوشش کا معاوضہ طلب کررہے تھے جو ایک بیس یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ روپے تھا۔
وہ اس امیدوار کو کہہ رہے تھے کہ ٹکٹ لینے کے بعد وہ آکر بابا کو جپھی ڈالے۔اب یہ جپھی وہ والی جپھی نہیں جس سے آپ کے سارے دکھ درد دور ہوجائیں گے، یہ جھپی تھی ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی۔ یہ سب باتیں ایک آڈیو کے ذریعے عوام تک پہنچیں، اسے میں ’مبینہ آڈیو لیک‘ نہیں کہوں گی کیونکہ ثاقب نثار صاحب اس آڈیو میں اپنے بیٹے کی آواز کی تصدیق کرچکے ہیں۔ اس آڈیو نے ہمارے نظام انصاف کا پردہ چاک کرکے اس کا مکروہ چہرہ واضح کردیا ہے۔
ناظرین، سوچیں! یہ صاحب جو آج سابق ہوچکے ہیں اور ٹکٹیں دلانے پر اس قدر زیادہ کما رہے ہیں، جب کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کے زیر نگرانی عام انتخابات ہوئے تھے، تب انہوں نے کتنی دیہاڑیاں لگائی ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا دور پاکستانی عدلیہ کا سیاہ ترین دور تھا۔وہ ایک طرز فرعونیت کے ساتھ کرسی پر براجمان ہوتے تھے۔ نواز لیگ کی حکومت تھی۔ اور یہ روز کٹہرے میں سیاست دانوں کو، بیوروکریٹس کو کھڑا کرتے تو شہنشاہ معظم بن کر تحقیر آمیز انداز گفتگو اختیار کرتے تھے۔
بدقسمتی سے ایک بڑے عہدے پر ایک چھوٹا شخص براجمان تھا جو بڑی کرسی کے نشے میں مست تھا، جس نے کروڑوں ووٹ لینے والے، تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے کو محض بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سیاست سے تاحیات نااہل کردیا، اسے پارٹی صدارت سے ہٹا دیا، اس کے دستخطوں سے جاری ہونے والے سینیٹ کے ٹکٹ منسوخ کر دیے، پھر وہ تمام سینیٹرز آزاد امیدوار کے طور پر جیتے تھے۔ پی کے ایل آئی کے ہسپتال کو کام کرنے سے روک دیا، ڈاکٹر سعید جو امریکا میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، انہیں عدالت میں بلا کر بے عزت کیا محض اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے۔ یوں اس منصوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس سے غریب لوگوں کے گردوں اور جگر کا مفت علاج ہوتا تھا۔ اسی شخص نے لاہور اورنج ٹرین پر پورا ایک سال اسٹے دیے رکھا تاکہ وہ بروقت مکمل نہ ہو اور شہباز شریف اس کا افتتاح نہ کرسکیں۔ اس اسٹے سے عوام کے پیسوں کا زیاں ہوا۔ اور وہ ایک بڑی کرسی پر براجمان شخص اندھا دھند اس ملک کو نقصان پہنچاتا گیا لیکن اسے روکنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے کہ اس وقت سسٹم کو ایسے کرپٹ لوگوں کی ضرورت تھی۔
سسٹم نے اس وقت ایک لاڈلا گود لے لیا تھا اور اس لاڈلے کو ایوان اقتدار تک پہنچانا تھا، اس کام کے لیے چن چن کر ایسے کرپٹ لوگ ڈھونڈے گئے جو اس لاڈلے کی ایوان تک پہنچنے کی راہ ہموار کریں۔ موصوف کی وہ ویڈیو تو سب نے دیکھی ہوگی کہ جس میں عدالت میں بیٹھے کہہ رہ تھے کہ پانچ، چھ ایم پی ایز تو میں ایسے ہی فارغ کردوں گا۔ سوچیں ان ایم پی ایز کو فارغ کرنے کے کتنے پیسے لیے ہوں گے؟ اس لاڈلے کو صادق و امین کا سرٹیفیکیٹ دینے کی کیا دیہاڑی لگائی ہوگی؟نواز شریف کو تاحیات نااہل کرنے پر کتنی جھپیاں ڈلوائی ہوں گی؟ کیا کبھی کوئی ان سوالات کے جوابات دے گا؟
اپنے ماضی کے کالے کرتوتوں پر شرمسار ہونے کی بجائے موصوف پھر اس گھناؤنے کردار کے ساتھ متحرک ہیں۔ کبھی طارق رحیم کے ساتھ بات کرتے ہوئے آڈیو آتی ہے کہ مریم نواز کو کرش کردو۔ اس لیے کرش کردو کہ وہ بولتی ہیں، وہ ان کے بھیانک کردار کو عیاں کرتی ہیں تو انہیں چپ کروا دو۔کبھی موصوف طارق رحیم کو بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کو نا اہل کیسے کرنا ہے، مختلف کیسز کے حوالے دے رہے ہوتے ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے تو ڈھٹائی کے ساتھ فرمادیتے ہیں کہ قانونی رائے مانگی تھی۔
طارق رحیم کی بیوی جسٹس بندیال اور منیب اختر کو ڈائریکٹ میسجز بھیجتی ہیں۔ جسٹس بندیال کی ساس کے ساتھ مل کر پلاننگ کرتی ہیں کہ جلدی الیکشن کروانے ہیں ورنہ مارشل لاء لگ جائے۔آپ ذہنی طور پر ان سب بونے لوگوں کی حرکتیں دیکھتے جائیں اور سوچتے جائیں کہ یہ لوگ اپنے مفادات کے لیے، اس ملک کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ کرتے رہے ہیں۔
یہ سرکس آج بھی جاری ہے وجہ وہی ہے کہ ایک لاڈلے کو اقتدار تک پہنچانا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا راستہ روکنا ہے تاکہ جو جونیئر ججز لاکر بیٹھا دیئے ہیں ان کے ذریعے سسٹم کو اسی کرپٹ طریقے سے چلاتے رہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی کی آڈیوز آگئیں، انہیں ٹرک دینے کی باتیں سامنے آگئیں لیکن چیف جسٹس نے کوئی ایکشن نہیں لیا کیونکہ انہیں خود کو بچانے کے لیے ایسے ہی کرپٹ ججز کی ضرورت ہے۔ اب اس سلسہ کو روکنا ہوگا، کب تک فوجی آمریت کے بعد،عدالتی آمریت کے ذریعے اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا رہے گا؟ کہیں نہ کہیں تو فل سٹاپ لگانا ہوگا۔
ہم نے پارلیمان اور سیاست دانوں کے علاوہ سب کو مقدس گائے بنا دیا ہے کہ کوئی ان کا احتساب نہیں کرسکتا۔ اقتدار پسند جرنیلوں نے ملک میں تباہی مچا دی لیکن انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا، بعض ججز نے غلط فیصلوں سے ملک کو نقصان پہنچایا لیکن کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا، ہاں! صرف سیاست دان اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل ہوجاتا ہے۔
آج پارلیمنٹ متحد ہے تو اسے چاہیے کہ وہ پارلیمان کی توقیر کے لیے بھی کچھ کرے۔ ارکان پارلیمان کب تک اپنا استحصال کرواتے رہیں گے؟ اگر عوام نے انہیں منتخب کرکے بھیجا ہے تو حکومت کرنا ان کا کام ہے، ادارے ان کے ماتحت ہیں، وہ اداروں کے ماتحت نہیں۔ یہ ایک بیس، ایک بیس کا کھیل اب ختم کرنا ہوگا ورنہ آپ ختم ہوجائیں گے اورآپ کا نشان بھی نہیں ملے گا۔