مسلم لیگ نواز کے قائد اور تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں محمد نواز شریف نے ٹویٹر پر ایک نجی نیوز چینل کے جرنلسٹ ندیم ملک کے پروگرام کا ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں ان کے خلاف سازشیں تیار کرنے، انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے اور انہیں سزائیں دلوانے میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے ہم خیال ججز کے علاوہ نیب کورٹ کے جج محمد بشیر، سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید ملوث تھے۔
سابق وزیراعظم نے سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہر معمولی بات پر سو موٹو نوٹس لیتے ہیں، کیا اتنے بڑے ظلم پر بھی کوئی از خود نوٹس لیا جائے گا؟ اور کیا مجرموں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا؟
پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنرل (ر) فیض حمید نے 2 بار جسٹس شوکت صدیقی کے گھر جا کر انہیں کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینا قومی مفاد میں ہے اور اگر انہیں ضمانت ملی تو ہماری 2 سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ نواز شریف نے سوال اٹھایا کہ وہ 2 سال کی محنت کیا تھی؟ اور نواز شریف کو سزا دینے کا عمل کون سا قومی مفاد تھا؟
پاکستان میں برسرِ اقتدار پارٹی کے قائد نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے جنرل (ر) فیض حمید نے نیب کورٹ کے جج محمد بشیر سے کہا کہ نواز شریف کو نیب کورٹ سے سزا تو ہونی ہے مگر اس سزا کی مدت کا تعین ہونا باقی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا جنرل (ر) فیض حمید اور جج محمد بشیر سے اس بارے میں کچھ پوچھا جائے گا؟ اور کیا جنرل (ر) فیض حمید سے پوچھا جائے گا کہ انہیں یہ بات کیسے معلوم تھی کہ نواز شریف کو سزا ضرور ہونی ہے؟
سابق وزیراعظم نے ایک بار پھر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انور کاسی نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بینچ سے علیحدہ کیا اور کہا کہ خاموش رہیں کیونکہ یہ اوپر سے حکم آیا ہے۔ نواز شریف نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا انور کاسی سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بینچ سے ہٹانے کے متعلق سوال پوچھا جائے گا اور کیا یہ بھی پوچھا جائے گا کہ وہ حکم “اوپر” کہاں سے آیا تھا؟
مسلم لیگ نواز کے تاحیات قائد نے جسٹس اعجاز الاحسن کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ وہ نیب ریفرنسز میں مانیٹرنگ جج تھے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسی مانیٹرنگ تھی کہ انصاف کا قتل ہوتا رہا اور وہ خاموش رہے؟
نواز شریف نے سوال اٹھایا کہ کیا اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے پوچھا جائے گا کہ ان کی سرپرستی میں اور انھی کی ناک کے نیچے جنرل (ر) فیض حمید کیسے ان جرائم میں ملوث رہا؟