دوحہ/بغداد—پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قطر میں قائم بین الاقوامی نیوز نیٹ ورک “الجزیرہ” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ 2018 میں عمران خان کی حکومت دھاندلی کی وجہ سے قائم ہوئی جس کے پیچھے اس وقت کے کچھ فوجی آفیسرز تھے، عمران خان کو فوج سے گزشتہ سال اپریل میں اس وقت تکلیف محسوس ہونا شروع ہوئی جب فوج نے سیاسی مداخلت ترک کرنے کا اعلان کیا یعنی انہوں نے عمران خان کی پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا لیا۔ عمران خان کو فوج یہ شکوہ نہیں کہ وہ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں بلکہ یہ شکوہ ہے کہ فوج ان کی حمایت میں سیاسی مداخلت کیوں نہیں کر رہی۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ عمران خان کو روس کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ہٹایا گیا بلکہ عمران خان کے گرنے کی وجہ وہ خود ہیں اور آنے والا وقت یہ ثابت کرے گا۔ فوج کا سیاسی کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے بلکہ پاکستان کی تاریخ میں نصف سے زائد عرصہ تک فوجی حکومتیں قائم رہیں، پیپلز پارٹی نے آمریت کے ہر دور کا مقابلہ کیا جبکہ عمران خان نے ہر ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا ہے۔ عمران خان اور ان کے حامی اس وجہ سے دلبرداشتہ ہیں کہ فوج آئین سے روگردانی کر کے عمران خان کی حمایت نہیں کر رہی جبکہ پاکستان کے عوام کی اکثریت یہی چاہتی ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ہم لوگ نسل در نسل فوجی آمریت کے خلاف آواز بلند کرتے آئے ہیں لیکن ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ حالات میں تبدیلی کیلئے فوجی تنصیبات پر حملے کیے جائیں بلکہ اس کا واحد راستہ عوامی طاقت کے ساتھ جمہوری جدوجہد ہے اور یہ تبدیلی صرف پارلیمنٹ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ عمران خان جب خود حکومت میں تھے تو وہ پارلیمنٹ پر توجہ نہیں دیتے تھے اور جب انہیں اپوزیشن لیڈر ہونا چاہیے تھا تو وہ پارلیمنٹ کو چھوڑ کر چلے گئے، پاکستان کا مقدر سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں طے ہونا چاہیے۔ مضبوط جمہوریت کے قیام اور فوجی مداخلت کے خاتمہ کا واحد راستہ پارلیمنٹ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پاکستان کے اندر جس طرح کی پاپولسٹ سیاست کو متعارف کروایا، اس سے ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس سے جمہوری بنیادیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے غم و غصہ میں مبتلا ہے۔ عمران خان نے اپنے حامیوں کو فوجی تنصیبات پر حملوں کیلئے اکسایا، انہوں نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی سمیت متعدد فوجی علامتوں کو نشانہ بنایا، ایسے حملے پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی کسی سیاسی جماعت نے نہیں کیے، ان حملوں میں ملوث افراد کو قوانین کے مطابق نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
چین اور روس کے ساتھ تعلقات کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اس حوالہ سے پرعزم ہے، ہم چین اور روس سمیت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات جاری رکھنا چاہتے ہیں اور ان تعلقات کو مزید فروغ بھی دینا چاہتے ہیں، ہم روس کے ساتھ بھی تعلقات کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے روس اور یوکرین کے تنازعات میں غیر جانبدار رویہ برقرار رکھا ہوا ہے جبکہ چین کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں، ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک کے علاوہ پاکستان نے ان تعلقات کی وجہ سے انرجی انفراسٹرکچر، کمیونیکیشن انفراسٹرکچر اور پورٹس انفراسٹرکچر کو ڈویلپ کیا ہے۔ ترقی ہر ملک کا حق ہے اور پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کی خوشحالی کیلئے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو آگے بڑھائے۔
عراق کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ میری کوشش ہے کہ پاکستان اور عراق کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے، دونوں ممالک نے دہشتگردی کا سامنا کیا ہے اور اس سے سبق بھی سیکھا ہے، دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی اور دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور مذہبی تعلقات بھی ہیں اور ہم انہیں آگے بڑھانے کیلئے ویزہ پالیسی بھی آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم نجف میں بھی قونصلیٹ کھولنے کے متعلق سوچ رہے ہیں دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے مواقع بھی موجود ہیں۔
موسمیاتی تغیر کے متعلق بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ یہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، ہم اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور پھر گزشتہ سال کے سیلاب نے بھی بہت تباہی پھیلائی ہے، ہر ساتواں پاکستانی اس سیلاب سے متاثر ہوا اور قریباً 33 ملین افراد سیلاب کے باعث پریشانی کا شکار ہوئے، اس سے ہماری معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان نے ماضی میں ملنے والے فنڈز کا درست استعمال نہیں کیا، 2005 کا زلزلہ ہو، 2010-11 کا سیلاب ہو یا حالیہ سیلابی صورتحال ہو، کہیں بھی فنڈز کا غلط استعمال نہیں ہوا، فی الحال پوری دنیا کی توجہ روس اور یوکرین کے تنازعات پر ہے اور مغربی ممالک کے زیادہ تر امدادی بجٹ اسی معاملہ پر خرچ ہو رہے ہیں۔
افغانستان کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نئی افغان حکومت سے یہی توقعات ہیں کہ وہ حالات میں بہتری لائیں گے، پاکستان کا مؤقف ہے کہ موجودہ افغان حکومت عالمی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنے ملک کے عوام کو ان کے حقوق فراہم کرے، خاص طور پر خواتین کے حقوق اور ان کی تعلیم پر توجہ دے، افغانستان کی زمین دوسرے ممالک میں دہشتگردانہ کاروائیوں کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ایرانی دورہ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہاں دو اہم منصوبوں کی بنیاد رکھنے گئے تھے، ہمارے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی بھی خطہ کیلئے ایک بہت اچھی خبر ہے۔
انہوں نے اپنے سیاسی تجربہ کے متعلق بھی بات کی اور کہا کہ پاکستان میں جمہوریت 2008 سے 2013 تک مضبوط ہوتی گئی جبکہ اس سے پہلے پاکستان میں جمہوری جدوجہد کیلئے ایک قدم آگے بڑھایا جاتا تھا تو دو قدم پیچھے دھکیل دیا جاتا تھا، پاکستان میں جمہوری استحکام کی بنیاد میثاقِ جمہوریت تھا جس کے بعد سیاست کے میدان میں بڑی تبدیلیاں آئیں، فی الحال پاکستان کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ مشکلات جلد ہی ختم ہو جائیں گی۔
میزبان جرنلسٹ نے سوال پوچھا کہ آپ کے نانا، آپ کی والدہ اور ان کے بھائیوں کو قتل کیا گیا لیکن پھر بھی آپ پاکستان واپس آئے، کیا آپ کو اس پر کوئی پچھتاوا ہے؟ بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ مجھے پاکستان واپس آنے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے بلکہ میں اپنے وطن کیلئے والدہ کے مشن کو پورا کرنے کی خواہش رکھتا ہوں، میں پاکستان کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں اور میں نے بطور وزیرِ خارجہ یہ محسوس کیا ہے کہ ہم پاکستان کے مسائل کو دور کر سکتے ہیں، جہاں تک میرے خاندان کی قربانیاں ہیں تو پاکستان میں جمہوری استحکام، امن کا قیام، ترقی اور خوشحالی ان قربانیوں کا بہترین صلہ ہو گا۔