لاہور—وزیراعظم میاں شہباز شریف نے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک سٹینڈ بائی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں جبکہ 12 جولائی کو آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ میں اس کی منظوری کے بعد اقساط کا اجراء شروع ہو جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اللّٰه تعالیٰ کے فضل و کرم اور مہربانی سے پاکستان ترقی کے سفر پر گامزن ہو رہا ہے اور مشکلات کا خاتمہ ہو رہا ہے، ہماری طویل عرصہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری تھی جو بالآخر ایک نتیجہ پر پہنچ چکی ہے، یہ سارا معاشی بوجھ، مشکلات اور تکالیف کا پہاڑ پچھلی حکومت کا کھڑا کیا ہوا تھا جس کو اہم نے ایثار اور قربانی کے جذبہ کے ساتھ ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 2018 تک پاکستان نواز شریف صاحب کی قیادت میں اللّٰه تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت تیزی کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن تھا اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے بدترین ناقدین کو بھی اختلاف کی جرات نہیں ہو سکتی، ترقی کی شرح 6.2 تھی اور پاکستان کا دنیا کی تیزی سے سفر کرتی ہوئی اکانومیز میں شمار ہو رہا تھا، بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا اور نواز شریف کی قیادت میں سی پیک آیا، بجلی کے منصوبے مکمل ہوئے، پن بجلی پر کام شروع ہوا، سڑکوں کا جال بچھایا گیا، شمسی نوائی اور ونڈ پاور منصوبے لگائے گئے مگر پھر 2018 میں بدترین دھاندلی کے ذریعہ عمران نیازی کو زبردستی اقتدار کے منصب بٹھایا گیا، آر ٹی ایس بند ہوا، دیہاتوں سے نتائج جلدی آنا شروع ہوئے جبکہ شہروں کے نتائج ہفتوں میں مکمل ہوئے، یہ ملکی تاریخ کا بدترین الیکشن تھا۔،
وزیراعظم نے کہا کہ عمران نیازی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں تاخیر کی اور جب معاہدہ ہوا تو سنگدلی کے ساتھ شرائط کی دھجیاں اڑائی گئیں، پوری دنیا میں ہمارا وقار مجروح ہوا اور پاکستان اپنا اعتماد کھونے لگا، کرونا سے ترقی کی رفتار میں کمی آئی مگر اس دوران جو کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اس پر توجہ نہ دی گئی، ایل این جی کے معاہدے کیے جا سکتے تھے مگر توجہ نہ دی گئی بلکہ اس کو بھی مجرمانہ غفلت سے نظر انداز کیا گیا جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا، ہمارا آذر بائیجان سے ایل این جی معاہدہ ہو چکا ہے، گندم برآمد کی گئی اور پھر درآمد بھی کی گئی، چینی برآمد کی گئی اور پھر ہم درآمد بھی کی گئی۔ ہم نے پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کیلئے حتی المقدور کوششیں کی ہیں، ہم نے جان بوجھ کر کوئی خیانت یا غلطی نہیں کی، بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ جو گندم اور فرٹیلائزرز خریدے گئے وہ سب سے کم بولی والے ڈیلرز سے بھرپور ڈسکاؤنٹ کے بعد حاصل کیے گئے، ہم دن رات محنت کر رہے ہیں، 2018 سے 2022 تک معیشت کو بری طرح تباہ کیا گیا اور سب سے بڑھ کر فتنہ سازی اور شورش پیدا کی گئی اور پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کیلئے پراپیگنڈے کیے گئے اور پھر ہماری حکومت کی مخلصانہ کوششیں ناکام بنانے اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا، عالمی اداروں کو بھی کہا گیا کہ اس حکومت کی مدد نہ کریں اور کہا گیا کہ خدانخواستہ پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سری لنکا پاکستان کا ایک دوست ملک ہے، سری لنکا اب بدترین معاشی حالات سے نکل رہا ہے، وہ ڈیفالٹ ہوا مگر اب بہتری کی جانب گامزن ہے، پیرس میں کانفرنس میں سری لنکا کے صدر بھی موجود تھے، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ آئی ایم ایف سے بات کریں،ل کیونکہ میں نے ان سے آپ کیلئے بات کی ہے، آئی ایم ایف کی ڈی ایم مجھ سے ملنے آئیں اور بتایا کہ سری لنکا کے صدر نے مجھے آپ سے بات کرنے کی گزارش کی ہے، سری لنکا پاکستان سے دوستی نبھا رہا ہے جبکہ یہ اندرونی دشمن پاکستان کے خلاف بدترین سازشیں کر رہے ہیں، آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی، خطوط لکھے گئے، سٹیٹ بینک نے بھی مکمل تعاون کیا، اسحاق ڈار نے تمام معاملات کو مکمل طور پر واضح کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنی سیاست کو داؤ پر لگا کر پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، نواز شریف نے اپنا سب کچھ داو پر لگایا، مسلم لیگ نواز نے اپنی سیاست کو داؤ پر لگا دیا، آئی ایم ایف نے دو تین معاملات کے متعلق کچھ ہدایات دیں جن پر ہم نے عمل کیا، میں نے اسحاق ڈار صاحب کو کال کر کے کہا کہ ایم ڈی سے بات کریں، اسحاق ڈار نے مکمل تعاون کیا اور پھر میں نے سعودی عرب کے محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کی اور سیلابی صورتحال میں مدد پر شکریہ ادا کیا، انہوں نے ملاقات کے بعد مزید ایک ملین ڈالرز کی مدد کا اعلان کیا، آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے بات ہوئی اور دونوں جانب سے نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا، پیرس میں ہونے والی اس ملاقات میں برف پگھلی اور میں پاکستان واپس آیا تو فجر کے وقت آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ٹیلی فون پر بھی بات ہوئی، پیرس کی میٹنگ واقعی ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سٹاف لیول معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں اور چونکہ 30 جون آخری دن تھا لہذا مجبوراً ایک سٹینڈ بائی معاہدہ ہوا ہے جبکہ 12 جولائی کو آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ میں اس کی منظوری کے بعد اقساط کا اجراء ہو گا، میں اسحاق ڈار کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے بہت محنت کی ہے اور راتوں کو جاگ جاگ کر کام کیا ہے، ان کی پوری ٹیم نے بہت محنت کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ لمحہِ فخریہ نہیں بلکہ لمحہِ فکریہ ہے، قرضوں سے قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں بلکہ یہ ہماری مجبوری ہے کہ ان حالات میں ایسا کرنا پڑا، دعا کریں کہ یہ آخری موقع ہو کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ ہوں، اللّٰہ کرے کہ ہمیں دوبارہ اس کے پاس نہ جانا پڑے، ہم نے نواز شریف کی قیادت میں آئی ایم ایف کے پروگرام کو مکمل کیا اور خیر باد کہا مگر پھر 2018 کے بعد پاکستان کے معاشی حالات کو خراب کیا گیا، انشاءاللّٰه ہم کوشش کریں گے کہ آئندہ ہمیں یہ سب نہ کرنا پڑے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ چین نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا اور قریباً 5 ارب ڈالرز کے قرضوں کی ادائیگی میں چین نے پاکستان کے ساتھ تعاون کیا، میں چین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، سعودی عرب نے دو ارب ڈالرز کا وعدہ کیا اور پورا کیا، یو اے ای نے بھی 1 ارب ڈالرز کا اعلان کیا مگر خدا کی قسم یہ زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں ہے، میں ان راہنماؤں سے ملتا ہوں تو ان کے چہرے پڑھتا ہوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اب اگلی بات کیا ہو گی۔ میں اللّٰه تعالیٰ کے فضل و کرم پر اس کا شکر گزار ہوں کہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا اور مشکلات سے نکل بھی رہا ہے، ڈیفالٹ کے امکانات تھے مگر الحمدللّٰه ایسا نہیں ہوا، اگر ڈیفالٹ ہو جاتا تو خدا کی قسم میں خود کو معاف نہ کر سکتا اور نہ ہی نواز شریف خود کو کبھی معاف کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل یہ ہے کہ ان قرضوں سے نکلنے کا راستہ اپنانا پڑے گا، پوری قوم جانتی ہے کہ کس نے دو صوبائی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ کو آئی ایم ایف کیلئے لیٹرز فراہم کرنے سے روکا تاکہ پاکستان ڈیفالٹ ہو جائے، کیا یہ پاکستانیت ہے؟ کیا یہ حب الوطنی ہے؟ یعنی اگر میں وزیراعظم نہیں ہوں تو کیا پاکستان کا گلا کاٹ دوں؟ 9 کئی کے واقعات کی کڑی بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے، 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کی گھناؤنی سازش تھی تاکہ یہاں انارکی ہو ، ملک ڈیفالٹ کر جائے، فتنہ برپا ہو جائے اور یہاں کھنڈرات بن جائیں۔ اللّٰه تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے پاکستان کو 9 مئی کے دن محفوظ رکھا اور اس دن مکروہ چہرے بےنقاب ہو گئے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ جہاں میری اور میری حکومت نے حقیر کوششیں کیں وہاں سعودی عرب اور یو اے ای کی بھی کاوشیں ہیں اور میں اس معاملہ میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا بھی ذکر کروں گا کہ انہوں نے بھی زبردست کام کیا ہے، یہ ٹیم ورک ہے کیونکہ یہ سب کچھ اکیلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے چند دن پہلے پاکستان کی معاشی بحالی کیلئے پورا پلان تیار کیا ہے اور اس کیلئے زراعت سب سے اہم فیکٹر ہے، ہم نے زراعت کی ترقی کیلئے بھی جامع پلان تشکیل دیا ہے، معدنیات کو بھی بروئے کار لانے کی طرف بھرپور توجہ دی جا رہی ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھی آگے بڑھانے کیلئے کام کیا جائے گا جبکہ پنجاب میں ہم پہلے کی نواز شریف کی قیادت میں اس حوالے سے بہت محنت کر چکے ہیں، ہمارے معاشی بحالی کے پلان میں وفاق، تمام صوبوں اور دفاعی اداروں سمیت سب مل کر کام کریں گے۔