لاہور/اسلام آباد—توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے معزز جج ہمایوں دلاور کے سامنے 342 کا بیان ریکارڈ کروا دیا۔ سابق وزیراعظم نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ میں نے توشہ خانہ کے تحائف ذاتی طور پر نہیں بلکہ اپنے ملٹری سیکرٹری کے ذریعہ فروخت کیے تھے۔
عمران خان کے وکیل مرزا عاصم بیگ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں معزز جج ہمایوں دلاور کے سامنے پیش ہوئے اور ملزم عمران خان کے متعلق عدالت کو بتایا کہ وہ آج ساڑھے بارہ بجے سیشن عدالت میں پیش ہوں گے۔ معزز جج ہمایوں دلاور نے ساڑھے بارہ بجے تک سماعت میں وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان عدالت کے روبرو پیش ہوئے، معزز جج نے انہیں روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ میں سوالات سن رہا ہوں، آپ جوابات دینا چاہیں تو دیں، عدالت آپ کو سوالات پڑھ کر سنائے گی، باقی آپ کی مرضی ہے۔
سماعت سے قبل غیر متعلقہ افراد کو عدالت سے باہر نکال دیا گیا جبکہ چند صحافیوں اور وکلاء کو کمرہ عدالت میں داخلہ کی اجازت دی گئی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے عمران خان سے پوچھا کہ کیا آپ نے شکایت کنندہ کے الزامات پڑھے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ انہوں نے شکایت کنندہ کے الزامات نہیں سنے اور یہ کہ بیانات ان کی موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوئے۔
سابق وزیراعظم نے مؤقف اختیار کیا کہ میری موجودگی میں فردِ جرم عائد نہیں کی گئی، مجھے فرد جرم پڑھ کر نہیں سنائی گئی، میں نے کیس میں کسی کو نمائندہ مقرر نہیں کیا، سیشن کورٹ نے خود میرا نمائندہ مقرر کیا، مجھے گواہان کے بیانات قلمبند کرتے وقت ہر سماعت پر استثنیٰ دیا گیا، عدالت نے میرے مقررہ نمائندہ کا مؤقف ٹھیک طرح نہیں لکھا، میں نے نمائندہ مقرر کرنے کی کوئی درخواست جمع نہیں کروائی اور میرے وکلاء نے عدالت کے نمائندہ مقرر کرنے کی مخالفت بھی کی۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ 17 جولائی کو مجھے گواہان کے بیانات کی کاپی فراہم کی گئی، 31 جولائی کو مکمل دن عدالت میں رہا اور گواہان کے بیانات پڑھے، الیکشن کمیشن نے شکایت دائر کرنے کیلئے کسی کو نامزد نہیں کیا اور شکایت 120 دنوں کے بعد دائر کی گئی، میں نے 2017 سے 2021 تک اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے، قانون میں نہیں لکھا کہ تحائف کے نام جمع کروائے جائیں اور فارم بی میں تحائف کے نام لکھنے کا کالم موجود نہیں، توشہ خانہ کے تحائف ذاتی طور پر نہیں بلکہ اپنے ملٹری سیکرٹری کے ذریعہ فروخت کیے تھے۔
چیئرمین تحریکِ انصاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 2020-2019 کے حوالے سے کبھی تحائف کے خریداروں کے نام نہیں پوچھے، فوجداری کارروائی میں شکایت کنندہ کو ثابت کرنا ہے کہ تحائف میرے پاس تھے جو میں نے ظاہر نہیں کیے، لسٹ بناتے وقت تحائف کی تفصیلات نہیں بنائی گئیں، گواہان نے تحائف کی مالیت کا چالان جمع نہیں کروایا، مجھ سے تحائف کے حوالے سے دستاویزات بناتے وقت رابطہ نہیں کیا گیا، دستاویزات کو سوالنامہ میں نہیں لکھا جا سکتا، تحائف کی دستاویزات مہیا کرنے والا بطور گواہ عدالت میں پیش نہیں ہوا، دستاویزات کو نہ تصدیق کیا گیا نہ اس کی شہادت لی گئی، کسی فرد نے دستاویزات کا بطور گواہ اقرار نہیں کیا، تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا کبھی مجھ سے نہیں پوچھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے کوئی گواہ نہیں لایا گیا، دستاویزات 160 صفحات پر مشتمل ہیں لیکن کوئی گواہ سامنے نہیں آیا، تحائف کی دستاویزات کو بطور ثبوت عدالت میں شامل نہیں کیا جا سکتا، الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کرنے کے بعد نجی بینک کا ریکارڈ طلب کیا، قانون کے مطابق نجی بینک کا ریکارڈ طلب نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان نے پہلے حلف پر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا تاہم پھر انہوں نے اپنے ریکارڈ کروائے گئے 342 کے بیان پر دستخط کر دیئے جس کے بعد وہ کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے۔