جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے حلف لیا، صدر کی جانب سے 21 جون 2023 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کی منظوری دی گئی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تحریکِ پاکستان کے سرگرم رکن اور بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھی قاضی محمد عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں، قاضی محمد عیسیٰ صوبہ بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم راہنما اور جماعت کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے رکن تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی کیرئیر
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ بنے تھے اور پھر 21 مارچ 1998 کو وہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ رجسٹرڈ ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 27 برس تک پاکستان کے تمام ہائی کورٹس، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں قانون کی پریکٹس کرتے رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے رکن رہ چکے ہیں جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے تاحیات رکن ہیں، انہیں وقتاً فوقتاً ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے پیچیدہ نوعیت کے کیسز میں کسی بھی فریق کا وکیل نہ ہونے کے باوجود قانونی رائے فراہم کرنے کیلئے بھی بلایا جاتا رہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق صدر اور فوجی آمر پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی اور عبوری آئینی حکم (پی سی او) کے تحت ججز کے حلف اٹھانے کی مخالفت کی تھی، بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر 2007 کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 جون 2009 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر کیے گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 4 ستمبر 2014 تک بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ خدمات انجام دیتے رہے، وہ 4 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں بطور جج تعینات ہوئے اور آج 17 ستمبر 2023 کو وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس بن چکے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 28ویں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی گزشتہ روز ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تعینات ہوئے ہیں جبکہ آئینی مدت کے مطابق وہ 25 اکتوبر 2024 تک مذکورہ عہدہ۔پر فائز رہیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس
مئی 2019 میں صدر عارف علوی کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوایا گیا جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 7 اگست 2019 کو ذاتی طور پر اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کر دیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے 19 جون 2020 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے دیا تاہم 10 میں 7 ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف عائد الزامات پر فیڈرل بیورو آف ریونیو کو تحقیقات کا حکم دیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مختلف بار کونسلز نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی اپیلیں دائر کر دیں۔
سپریم کورٹ نے 26 اپریل 2021 کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ان کی اہلیہ کی نظرِثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے ان کی جائیدادوں کا معاملہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کو بھجوانے سے متعلق گزشتہ سال سنایا گیا سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے 26 اپریل 2021 کے فیصلے کے خلاف 25 مئی 2021 کو کیوریٹیو ریویو اپیل دائر کر دی، بعد ازاں 31 مارچ 2023 کو صدر عارف علوی نے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی ایڈوائس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو واپس لینے کی منظوری دی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کیوریٹیو ریویو واپس لینے کی درخواست 21 جولائی 2023 کو منظور کرنے کی بنیاد پر نمٹا دی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیرئیر کا اہم ترین کیس “فیض آباد دھرنا کیس” تھا۔ فروری 2017 میں اسلام آباد کے داخلی علاقہ فیض آباد میں تحریکِ لبیک کے دھرنے سے عوام کو درپیش مشکلات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، تقریباً ڈیڑھ سال کی سماعت کے بعد جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ تحریر کیا۔
اس اہم فیصلہ میں آئی ایس آئی کے خلافِ قانون کردار پر سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں نفرت، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور آہنی ہاتھوں سے نمٹیں۔
تاریخی فیصلہ میں چیف آف آرمی سٹاف کو بھی حکم دیا گیا کہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنہوں نے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملکی سیاسی امور میں مداخلت کی۔ فیصلہ میں واضح طور پر لکھا گیا کہ یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ فوج کسی ایک جماعت، سیاستدان یا تنظیم کی حمایت کر رہی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2012 میں میمو گیٹ کمیشن کی سربراہی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی کمیشن رپورٹ میں حسین حقانی کو قصوار ٹھہرایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد حقائق جاننے کیلئے بننے والے انکوائری کمیشن کی بھی سربراہی کی جبکہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ ملک میں دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہے۔