اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئندہ عام انتخابات کے نتیجہ میں مخلوط حکومت تشکیل پائی تو میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف میں سے کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہتا کیونکہ دونوں پرانی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان پرانی سیاست کرنا چاہتے ہیں جس کو ہم بار بار ناکام ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں، یہ لوگ اپنی ذاتی انا کی وجہ سے ریاست اور جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، پیپلز پارٹی ایک نئی سوچ اور جذبہ کے ساتھ ملکی نظام کو بہتری کی جانب لے جانا چاہتی ہے، پیپلز پارٹی کو انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کا ساتھ مل سکتا ہے۔
برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے کردار سے پہلے ہی مایوس تھا اور اب میاں صاحب کے کردار سے بھی سخت مایوس ہوں، اسی لیے آج کل ہمارے درمیان واضح طور پر فاصلے موجود ہیں اور اگر نواز شریف نے وہی پرانی سیاست کرنی ہے تو پھر میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہمارے پورے معاشرے میں نفرت اور تقسیم کی سیاست پھیل چکی ہے جس کو دفن کرنا ضروری ہے، ہمیں مل کر پاکستان کے مسائل حل کرنے چاہئیں لیکن یہ نواز شریف اور عمران خان نہیں کر سکتے بلکہ صرف پیپلز پارٹی کر سکتی ہے، عمران خان نے سب سے زیادہ سیاسی قیدی رکھے، ہماری حکومت آئی تو پاکستان میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہو گا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم ملک کے چاروں صوبوں میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں کیونکہ ہم انتخابات اور جمہوریت کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، پہلے ہمارا یہ خیال تھا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی لیکن پاکستان میں یہ ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے اور اس حوالہ سے معیار بلند نہیں ہو سکا، بہت سارے سیاستدان 2018 میں الیکشن نہیں لڑ سکے تھے جبکہ 2013 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مکافاتِ عمل ہے، آج اگر وہ میدان سے باہر ہیں تو اس کی وجہ ان کے اپنے سیاسی فیصلے ہیں، انھوں نے اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور پھر غیر جمہوری انداز میں اداروں پر حملے کیے، انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ریاست اس قسم کا تشدد برداشت نہیں کرے گی۔
انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس معاملہ میں مسلسل جدوجہد کرنا پڑے گی، اس ضمن میں پہلا قدم سیاستدانوں کو اٹھانا پڑے گا اور اگر وہ ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو پھر دوسروں سے کیسے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ہماری عزت کریں گے، سیاستدانوں کو سیاست کے دائرہ میں رہ کر سیاست کرنی چاہیے۔