لاہور (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ میں انتخابی نشانات نے ہمیشہ ایک اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ یہ علامتیں سیاسی جماعتوں کے نظریات اور ان کی اصل روح کو ایک مجسم شکل فراہم کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک دلچسپ داستان پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہے جس نے اپنا مشہور انتخابی نشان شیر حاصل کیا۔ سیاسی مہمات کی بےیقینی اور توقعات کی جھلک پیش کرتی یہ داستان پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک اہم شخصیت مرحوم سرتاج عزیز نے بیان کی ہے۔
یہ کہانی ہمیں ماضی کی جانب 1990 میں لے جاتی ہے جہاں سیاسی منظرنامہ پر تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) میں شامل مسلم لیگ انتخابات کی تیاری کر رہی تھی، آئی جے آئی پہلے بھی انتخابی نشان کے طور پر سائیکل کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے چکی تھی اور کامیابی بھی حاصل چکی تھی، مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ووٹرز کے روبرو جماعت کی ایک مستقل پہچان قائم کرنے اور سیاسی تسلسل کیلئے آئندہ انتخابات میں سائیکل کا انتخابی نشان برقرار رکھنا بہت ضروری ہے، اس تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مرحوم سرتاج عزیز نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جہاں وہ ایک غیر متوقع چیلنج میں الجھ گئے۔
پاکستان مسلم لیگ جونیجو (پی ایم ایل جے) کے سیکرٹری جنرل اقبال احمد خان بھی سائیکل کے انتخابی نشان کیلئے درخواست جمع کرا چکے تھے، اس الجھن کو سلجھانے کیلئے چیف الیکشن کمشنر نے فیصلہ کیا کہ یہ معاملہ قرعہ اندازی کے ذریعہ حل کیا جائے گا، اس قرعہ اندازی کا نتیجہ مرحوم سرتاج عزیز کیلئے کسی دھچکے سے کم نہ تھا کیونکہ انتخابی نشان سائیکل کی پرچی اقبال احمد خان کے حصہ میں آئی جبکہ مرحوم سرتاج عزیز خالی ہاتھ رہ گئے، گھبراہٹ میں مبتلا مرحوم سرتاج عزیز کو وقت کی قلت کا بھی احساس تھا جبکہ وہ علامتی نمائندگیوں میں پنہاں پولیٹیکل سٹیک سے بھی واقف تھے۔
دیگر انتخابی نشانات میں سے بیشتر پہلے ہی الاٹ ہو چکے ہیں، مرحوم سرتاج عزیز نے اپنے اختیارات کا از سرِ نو جائزہ لینے کیلئے ایک مختصر وقفہ کی درخواست کی اور پھر کشمکش کے ان لمحات میں انہوں نے دریافت کیا کہ شیر کی علامت تاحال دستیاب ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرحوم سرتاج عزیز نے فوری طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کیلئے شیر کا انتخابی نشان حاصل کیا اور پھر ترجیح کی بجائے ضرورت کے تحت کیا گیا یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کیلئے غیر متوقع طور پر مبارک ثابت ہوا۔
شیر کے انتخابی نشان کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں اور حامیوں نے جوش و خروش کے ساتھ گلے لگایا جبکہ اس کو انتخابی پوسٹرز، انتخابی جلسوں میں سٹیج کی سجاوٹ اور جماعت کے ترانوں میں بڑے مفید انداز میں استعمال کیا گیا، شیر کا نشان پاکستان مسلم لیگ (ن) کیلئے طاقت اور عزم کی علامت بن گیا اور اس سے جماعت کی پہچان کے حوالہ سے ایک نئے باب کا آغاز ہوا جبکہ یہ نشان ووٹرز کے دِلوں میں بھی گھر کر گیا، لیاقت باغ میں منعقد ہونے والے انتخابی مہم کے آخری جلسہ سے میاں نواز شریف نے خطاب کیا جبکہ اس جلسہ میں شیخ رشید احمد کی جانب سے زندہ شیر لانے کا فیصلہ بھی اس نشان کے طاقتور اثرات اور بھرپور عوامی حمایت کا مظاہرہ تھا۔