اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) – سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ہوئی ہے جس کو ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کیا گیا ہے جبکہ کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔
فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فیض آباد دھرنا سے متعلق کمیشن کی رپورٹ پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ کمیشن کی رپورٹ نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی، ہمارا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیسا دھرنا کمیشن اور یہ کیسی فائنڈنگ رپورٹ ہے جس میں 12 مئی اور اس کے بعد والے دھرنوں کو ہی گول کر دیا گیا ہے، یہ لوگ کہاں سے آ گئے ہیں جنہوں نے گھسے پٹے جملے رپورٹ میں لکھ دیے ہیں اور جن کی گرائمر ہی درست نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے یہ ساری رپورٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کلین چٹ دینے کیلئے بنائی گئی ہے, جنرل (ر) فیض حمید نے جو کہہ دیا کیا وہ فتویٰ ہو گیا؟ کیا وہ اتنی زیادہ بااثر شخصیت ہیں کہ ان سے سوال ہی نہیں پوچھا جا سکتا؟ ان کو بلایا جانا چاہیے تھا اور ان سے پوچھنا چاہیے تھا، یہ کیسے کہ ’’وہ کہہ رہے ہیں‘‘؟ کمیشن کی رپورٹ پڑھ کر مایوسی ہوئی، بظاہر اُن کا مینڈیٹ فیض حمید کو کلین چِٹ دینا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں ایک سیاستدان رانا ثناء اللّٰہ پر تمام ذمہ داری کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ان کی رانا ثناء اللّٰہ سے کوئی دشمنی ہے، کمیشن کو لگتا ہے کہ پنجاب حکومت سے بھی کوئی بغض ہے کہ انہوں نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر ہی گرا دیا ہے، کیا پنجاب حکومت احتجاج کر رہی تھی؟ کیا پنجاب حکومت پتھراؤ کر رہی تھی؟ کیا پنجاب حکومت گاڑیوں کو آگ لگا رہی تھی؟ کیا اسلام آباد پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ بس اسلام آباد نہ آؤ اور پنجاب میں جو مرضی کرو؟
عدالتِ عظمٰی کے منصفِ اعظم نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کو چاہیے تھا کہ ٹی ایل پی (تحریکِ لبیک پاکستان) کو بھی بلاتے، شاید ٹی ایل پی ان کی کچھ مدد کرتی، وہ اس معاملہ میں ایک اہم پارٹی ہے، ان کا مؤقف آنا ضروری ہے، ان کو بلانے سے کمیشن کو ڈر لگ رہا ہے؟ ٹی ایل پی کا بھی حق تھا کہ ان کو بلایا جاتا اور ان کی بات سنی جاتی، یہ کیسی انکوائری رپورٹ ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیسی دھرنا رپورٹ بنائی گئی ہے جس میں صوبائی تعصب نظر آ رہا ہے، کیا انہوں نے سارا کام مفت میں کیا ہے؟ ہم اس رپورٹ کا کیا کریں؟ جس مقصد کیلئے یہ کمیشن بنایا گیا تھا وہ کام تو ہوا ہی نہیں ہے، پوری رپورٹ میں ایک بھی کام کی بات نہیں ہے۔
دھرنا کمیشن میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ابصار عالم نے بیان دیا کہ جنرل (ر) فیض حمید نے انہیں فون کیا تھا، کمیشن کا کام تھا کہ ابصار عالم اور جنرل (ر) فیض حمید کو بلاتے اور دونوں سے سوال جواب کرتے، ان سے جرح کرتے مگر کمیشن نے کسی کو بلایا ہی نہیں اور اپنی فائنڈنگ بھی دے دیں!
اس موقع پر سابق چیئرمین پیمرا اور سینئر صحافی ابصار عالم روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میرے بارے میں کمیشن آدھا مان رہا ہے اور آدھا نہیں مان رہا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دہشتگردی کیلئے فنانسنگ کو دیکھنے سے متعلق یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا کام نہیں ہے، اہم متاثرہ فریق ٹی ایل پی (تحریکِ لبیک پاکستان) تھی، اس سے بھی کچھ نہیں پوچھا گیا، ہم جنرل (ر) فیض حمید کو نوٹس کر دیتے ہیں کہ اس کو مانتے ہیں یا نہیں!
جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ فیض آباد دھرنا کمیشن نے ابصار عالم سے بیانِ حلفی لیا ہے لیکن جنرل (ر) فیض حمید کی باری آئی تو انہیں محض سوالات بھیج کر جواب لے لیا گیا، ایسا کیوں کیا گیا؟ جنرل (ر) فیض حمید سے بیانِ حلفی کیوں نہیں لیا گیا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلہ پر عمل درآمد کیا جاتا تو 9 مئی 2023 جیسا سانحہ پیش نہ آتا، کیا ایک اور 9 مئی کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ پاکستان میں تین واقعات رونما ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ چوتھا 9 مئی والا شامل کر لیں اور شاید اب پانچویں کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے دھرنا کمیشن رپورٹ لکھی ہے؟ فیض آباد دھرنا کمیشن کا سارا دار و مدار صرف جنرل (ر) فیض حمید کے جواب پر منحصر ہے، یہ کیسا انکوائری کمیشن تھا جس نے کچھ کیا ہی نہیں ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایسا لگتا ہے پاکستان کا نقصان کرنا اب بنیادی حق بن چکا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اب جلاؤ گھیراؤ اور مار پیٹ یہاں سب کا حق ہے، پوری دنیا میں مظاہرے ہوتے ہیں لیکن اس طرح جلاؤ گھیراؤ نہیں ہوتا جیسے یہاں پاکستان میں کیا جاتا ہے، جو لوگ یہ سب کرتے ہیں انہیں سبق سکھایا جانا چاہیے۔
عدالتِ عظمٰی کے منصفِ اعظم نے فیض آباد دھرنا کمیشن کے ارکان سے متعلق کہا کہ کمیشن کے ارکان کو انگریزی نہیں آتی یا کمزور ہے تو رپورٹ اردو میں ہی لکھ دیتے، انہیں پالیسی اور حلف میں فرق ہی معلوم نہیں ہے۔
فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ کو پبلک کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل کے سوال کے جواب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم ابھی کمیشن کی رپورٹ کی توثیق نہیں کر رہے، سرکار کی مرضی ہے کہ وہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پبلک کریں یا نہ کریں۔