لندن (تھرسڈے ٹائمز — برطانوی اخبار ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی گورننگ باڈی نے سیاستدانوں کو یونیورسٹی کے نئے چانسلر کے عہدہ کیلئے امیدوار بننے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے آکسفورڈ یونیورسٹی کی 300 سالہ روایت ٹوٹ جائے گی۔
دی ٹیلی گراف نے اس حوالہ سے ایک اہم ای میل بھی لیک کیا ہے جو کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے اکیڈمکس کو بھیجا گیا، ای میل میں یونیورسٹی کی رجسٹرار گیلین الیزبتھ ایٹکن نے کہا ہے کہ ایک پینل قانون سازی میں شامل اراکین اور سیاست میں فعال افراد کو یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدہ کی دوڑ سے باہر رکھے گا جو کہ لارڈ پیٹن آف بارنیز کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔
یہ غیر معمولی فیصلہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی کونسل کی جانب سے سامنے آیا ہے جس نے سینئر کنزرویٹوز کی ناراضگی کو جنم دیا اور انتخابی عمل میں تبدیلیوں پر ایک بڑے تنازعہ کو دوبارہ بھڑکا دیا جبکہ ان معیارات کی وجہ سے تھریسا میری مے، بورس جانسن اور عمران خان جیسے سیاستدان ممکنہ طور پر امیدواروں کی فہرست سے خارج ہو سکتے ہیں۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق اخبار کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر آکسفورڈ یونیورسٹی کی رجسٹرار گیلین الیزبتھ ایٹکن نے کہا کہ ایسے افراد کو صرف اس صورت میں روکا جائے گا جب وہ چانسلر کی حیثیت سے اپنی مدت کے دوران کسی مقننہ کا رکن بننے کا ارادہ رکھتے ہوں گے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ان معیارات نے ماضی کے چانسلرز کو بھی خارج کر دیا ہے جن میں لارڈ پیٹن، ہارولڈ میکملن اور روئے جینکنز شامل ہیں جو کہ سیاست کا حصہ رہے ہیں تاہم یونیورسٹی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ یہ صرف اُن افراد کو روکے گا جو چانسلر کے عہدہ کے دوران قانون ساز اداروں کے رکن بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ کے سابق رکن روری سٹیورٹ کو ممکنہ چانسلر کے طور پر تجویز کیا گیا ہے، ٹوری کے سورس کے مطابق یہ اصول روری سٹیورٹ کے حق میں مفید ثابت ہو سکتا ہے جو 2019 میں رکنِ پارلیمنٹ کے طور پر کھڑے ہوئے تھے اور اب ایک پوڈ کاسٹ پیش کرتے ہیں۔
لندن میں قائم برطانوی اخبار ’’دی ٹیلی گراف‘‘ کی جانب سے 30 مارچ کو شائع کیے گئے آرٹیکل کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کی رجسٹرار گیلین الیزبتھ ایٹکن کی جانب سے اکیڈمکس کو بھیجے گئے ای میل نے پہلی بار سیاستدانوں پر نئی پابندی کا انکشاف کیا ہے جس کے مطابق اہلیت کا معیار مفادات کے تنازعات والے امیدواروں کو مسترد کر دے گا۔