اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کر سکتی، ہمیں یہاں صرف مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے، اگر ججز کمیٹی اجلاس میں کوئی رکن شریک نہیں ہونا چاہتا تو یہ اس کی مرضی ہے، نظرِثانی کیس 2 سال سے زائد عرصہ سے زیرِ التواء ہے، ایک بار بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر آج پہلی سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظر عالم پر مشتمل 4 رکنی بینچ کمرہِ عدالت میں پہنچا جبکہ بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر کمرہِ عدالت میں نہیں آئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیس کے حوالے سے لارجر بینچ آج نہیں بنا تھا، کیس کا فیصلہ ماضی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا، قانون کا تقاضا ہے کہ نظرِثانی اپیل پر سماعت وہی بینچ کرے، سابق چیف جسٹس کی جگہ میں نے پوری کی، جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیا گیا جبکہ ہم جا کر جسٹس اختر منیب سے درخواست کریں گےکہ وہ بینچ میں بیٹھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کا آج کی سماعت میں شامل نہ ہونا ان کی مرضی تھی، ہم کل دوبارہ اس نظرثانی کیس کی سماعت کریں گے، امید کرتے ہیں کہ جسٹس منیب اختر کل سماعت میں شامل ہوں، ہم جسٹس منیب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ بینچ کی تشکیلِ نو ہو گی، امید ہے جسٹس منیب اختر دوبارہ بینچ میں شامل ہو جائیں گے، جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، دونوں صورتوں میں کل کیس کی سماعت ہو گی۔
جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط تحریر کر دیا جس کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہِ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میں آج اس کیس میں شامل نہیں ہو سکتا، میرا خط اس نظرِثانی کیس میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے یہ بینچ تشکیل دیا ہے، کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے اور میرے خط کو نظرِثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جسٹس منیب اختر کا خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا، ایسے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے، مناسب ہوتا کہ جسٹس منیب اختر بینچ میں آ کر اپنی رائے دیتے، میں نے ہمیشہ اختلافی رائے کی حوصلہ افزائی کی ہے، نظرِثانی کیس 2 سال سے زائد عرصہ سے زیرِ التواء ہے۔
عدالتِ عظمٰی کے منصفِ اعظم نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کا مقدمہ بڑا اہم ہے، جسٹس منیب اختر کی رائے کا احترام ہے لیکن ایک بار بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔
دورانِ سماعت پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آئے اور انہوں نے کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کر دیا، انہوں نے کہا کہ کمیٹی تب ہی بینچ بنا سکتی ہے جب تینوں میمبرز موجود ہوں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کے قانون کی یہ نیت نہیں کہ آئینی حقوق کے فیصلے نہ ہوں اور سپریم کورٹ ساکت ہو جائے، اگر کوئی رکن شریک نہیں ہونا چاہتا تو یہ اس کی مرضی ہے، سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کر سکتی، ہمیں یہاں صرف مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق فیصلے پر نظرِثانی کی درخواستوں پر سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکنِ اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہو گا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرے، اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔
اس معاملے پر مختلف نظرِثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی، یہ درخواستیں 2 سال سے زائد عرصہ سے زیرِ التواء تھیں۔