spot_img

Columns

Columns

News

No magic, only hard work: Shehbaz Sharif says Pakistan’s future depends on unity

Speaking to religious scholars in Islamabad, Prime Minister Shehbaz Sharif said Pakistan will not progress through “magic” or shortcuts but through hard work, unity and respect for the armed forces. He hailed the army’s performance against India, urged clerics to fight sectarianism and argued that tough decisions by political and military leaders have helped pull the economy back from the edge of default.

پاکستان جادو ٹونے سے نہیں، صرف سخت محنت سے آگے بڑھے گا، وزیراعظم شہباز شریف

پاکستان نہ جادو ٹونے سے آگے بڑھ سکتا ہے، نہ انتشار اور فرقہ واریت کے سہارے۔ اس کے لیے سخت محنت اور قومی یکجہتی ناگزیر ہے۔ بھارت کے خلاف معرکۂ حق میں افواجِ پاکستان کی جرات مندانہ فتح نہ صرف پوری قوم بلکہ ہمارے دوست اور برادر ممالک کے لیے بھی باعثِ فخر ہے۔ فوج کے خلاف ہونے والے ہر پراپیگنڈے کا مؤثر جواب دینا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

Kemi Badenoch has declared war on the welfare state

In a blistering London speech, the Conservative leader tore into mental-health diagnoses, child-poverty metrics, and Labour’s welfare vision — igniting the fiercest policy fight of her campaign.

پاک بحریہ ملکی بحری سرحدوں پر آہنی فصیل ہے، چیف آف ڈیفینس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر

پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ پلائی دیوار اور ملکی بحری سرحدوں پر آہنی فصیل ہے، پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خودمختاری اور دفاع کیلئے عزمِ محکم رکھتا ہے۔

Trump targets Indian ‘Dumped’ rice as new flashpoint in US-India trade

In a few pointed lines at the White House, President Trump accused India of “dumping” rice into US markets and demanded to know why New Delhi is “allowed” to do so without heavier tariffs. Treasury Secretary Scott Bessent denied any exemption, but the exchange has raised the prospect that Indian rice could become the next flashpoint in US–India trade
Commentaryہاتھی اپنے بوجھ سے گرے گا
spot_img

ہاتھی اپنے بوجھ سے گرے گا

Azhar Syed
Azhar Syed
Azhar Syed is an established columnist and reporter.
spot_img

سیاستدان فوجی جنرل نہیں ہوتے جو ادارے اور بندوق کے زور پر اپنی ریٹائرمنٹ تک عظمت کے آسمان پر چڑھے رہتے ہیں اور نوکری سے فراغت ہوتے ہی جنرل مشرف یا ثاقب نثار کی طرح زلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ سیاستدان مر جائیں تو  بینظیر بھٹو ،ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عوام کے دلوں میں یاد بن کر رہتے ہیں اور زندہ ہوں تو ،آصف علی زرداری ،نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن ،مریم نواز اور بلاول بھٹو کی طرح ملازمت کرنے اور ایک دن سرکاری نوکری سے ریٹائر ہونے والوں کے دلوں پر مونگ دلتے ہیں کہ انکے پیچھے عوام کی طاقت ہوتی ہے۔

آج جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا طوطی بولتا ہے انہیں ریٹائر ہونے دیں جو کچھ پچھلوں کے ساتھ ہوا وہی کچھ ان کے ساتھ ہو گا کہ یہی تاریخ ہے۔

کبھی جنرل ضیا نے غلیظ ججوں کی مدد سے بھٹو کو زندگی سے محروم کر دیا لیکن بھٹو مرنے کے بعد تین مرتبہ اقتدار میں آیا اور چوتھی مرتبہ بھی بلاول بھٹو کی شکل میں عوام کا نمائندہ ہو گا۔ آپ جتنا بھی پراپیگنڈہ کر لیں ۔ گھٹیا اور غلیظ اینکرز کے بار بار پٹے کھولیں کہ آصف علی زرداری پر بھونکیں جب بھی آزاد اور شفاف الیکشن ہونگے عوام اپنے ووٹ کے پتھروں سے ان بھونکتے کتوں کو حقارت سے بھگا دیں گے کہ یہی تاریخ ہے ، جو بار بار دہرائی جاتی ہے اور دہرائی جائے گی۔

میاں نواز شریف کو جنرل مشرف نے طیارہ ہائی جیکینگ کیس میں پھانسی کی سزا کو ڈروا دے کر جلا وطنی کے معاہدے پر مجبور کیا آج ملکی سیاست اور عہدیداروں کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ نواز شریف کو سفارتیں بھجواتے ہیں کہ تقریروں میں “ہمارا نام نہ لو پلیز”

آصف علی زرداری سے امیدیں باندھے بیٹھے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد میں نفاق پیدا ہو جائے گا۔

مولانا فضل الرحمن کو قاصد کے ہاتھ وعدے بھیجتے ہیں کہ ہم اب سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے ہمیں کوئی محفوظ راستہ دے دیا جائے پلیز۔

سیاستدان طاقتوروں کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ سیاستدان جانتے ہیں اونٹ پہاڑ کے نیچے آ گیا۔سیاستدان سمجھ رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں کہ ہاتھی کے پاس اجاڑنے کیلئے گنے کے کھیت تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور ہاتھی بھوک سے نڈھال ہو رہا ہے۔

وقت ،تاریخ اور حالات نے سیاستدانوں کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے پرانے حسابات چکھا لیں۔ سیاستدان اب گن گن کر بدلے لے رہے ہیں۔ سب اندر سے ملے ہوئے ہیں اور ریسکیو کیلئے کوئی اپنا کاندھا دینے کیلئے تیار نہیں البتہ چکر سب دے رہے ہیں۔

کبھی مولانا فضل الرحمن دھمکی دیتے ہیں کہ ہمارے دھرنے کا رخ راولپنڈی کی طرف ہو گا ۔ امیدوں کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں کہ “پنڈی کا رخ کرو حب الوطنی کا نعرہ لگا کر تمام ریاستی طاقت کے ساتھ ایک ہی ہلے میں کچل دیں گے”

مولانا فضل الرحمن یہ کہہ کر فرار ہو جاتے ہیں 

“ہمارا تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی جھگڑا ہی نہیں صرف شکوہ ہے “

پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اعلان ہوتا ہے کہ 31 جنوری تک “سوغات “نے استعفی نہ دیا تو دمادم مست قلندر ہو گا۔ آس کے جگنو جگمگانے لگتے ہیں کہ چلو اسی بہانے سوغات کے کمبل سے جان چھڑانے کا موقع مل جائے گا ۔ اپوزیشن چپ چپیتے فرار ہو جاتی ہے۔

اعلان ہوتا ہے کہ سینٹ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے اسمبلیوں سے استعفے دیں گے ،امیدیں جاگ اٹھتی ہیں چلو اس بہانے جان چھوٹ جائے گی اور معاشی تباہی کا سارا مدعا نئی حکومت  پر ڈال کر حب الوطنی کے کوہ ہمالیہ پر چڑھ جائیں گے اور معاشی بہتری کے بھاشن دیں گے ۔اپوزیشن پھر بھاگ جاتی ہے نہ استعفے دیتی ہے ستم یہ کہ سینٹ الیکشن میں بھر پور حصہ لینے کا اعلان کر دیتی ہے۔

غصے اور بے بسی سے بھرے بیٹھے ہیں ۔پیچھے ہٹتے ہیں تو سب کچھ ہاتھ سے نکلتا ہے ڈھٹائی سے اپنی ضد اور انا پر اڑے رہتے ہیں تو معاشی تباہی سے ملک ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دیتا ہے ۔ کارپوریٹ مفادات حب الوطنی پر حاوی ہیں اور جواب طلبی کا خوف ڈٹے رہنے پر مجبور کرتا ہے ۔جائیں تو جائیں کہاں۔

سینٹ الیکشن میں سوغات کو پھر سے جتاتے ہیں تو اس سوغات نے ڈھائی سال میں بدنامی اور معاشی بربادی کے سوا دیا کیا ہے یہ سوال نیندیں حرام کئے ہوئے ہے ۔گلگت بلتستان الیکشن کی طرح کامیاب کراتے ہیں تو مزید بدنامی کا نیا طوق گلے میں ڈالنا پڑے گا ۔ عجیب مشکل میں جان پھنس گئی ہے جائیں تو جائیں کہاں۔

پیپلز پارٹی نے ایک نیا چکمہ تحریک عدم اعتماد کا دیا ہے ۔اب پھر سے امیدیں باندھ لیں ہیں کہ شائد آصف علی زرداری جان چھڑا دے ۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بھی بس ایک ہی کایاں ہیں ۔یہ وہ زات شریف ہیں کہ جس غلام اسحاق خان نے مسٹر ٹن پرسنٹ کہہ کر بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تھی وہی بدھا کھوسٹ  مسٹر ٹن پرسنٹ سے کچھ عرصہ بعد وفاقی وزیر سرمایہ کاری کا آصف علی زرداری سے حلف لیا رہا تھا۔

آصف علی زرداری نے 2018 کے الیکشن میں سندھ میں پیپلز پارٹی کو جی ڈی اے کے عفریت سے بچا لیا تھا اور سینٹ میں بھی پیپلز پارٹی کی حجم سے زیادہ سیٹیں لے لی تھیں۔ 

تحریک عدم اعتماد کے چکمے سے آصف علی زرداری اس دفعہ بھی سینٹ میں پیپلز پارٹی کیلئے اضافی سیٹیں حاصل کر لے گا اسٹیبلشمبٹ کی جان پھر بھی سوغات سے نہیں چھڑائے گا ۔ یہ سب اندر سے ملے ہوئے ہیں اور پکے پکے ملے ہوئے ہیں۔ 

سیاستدان طاقتوروں کو مزید رسوا کرنے کیلئے چکر پر چکر دے رہے ہیں ۔ سیاستدان سوغات کو خدائی تحفہ سمجھ کر اسکی حکومت بچا رہے ہیں کہ سوغات کے ہر مکر،چال بازی اور فراڈ ۔۔۔۔پر عوامی عوامی غصہ سوغات پر کم اور اس کو مسلط کرنے والوں پر زیادہ نکل رہا ہے۔

غربت،بے روز گاری اور مہنگائی کے ہاتھوں کچلے بے بس عوام سوغات کو کم اور خلائی مخلوق کو زیادہ زمہ دار سمجھ رہے ہیں ۔سیاستدان کوئی پاگل تھوڑی ہیں کہ وہ اس سوغات سے اسٹیبلشمنٹ کی جان چھڑائیں۔

سیاستدان دیکھ رہے ہیں کہ ملک کا وہ حال ہو گیا ہے کہ حکومت سنبھالنا تمام معاشی تباہی کا ملبہ اٹھانے کے برابر ہے۔ سیاستدان حکومت سنبھالنے کیلئے تیار نہیں بلکہ بے بسی کا تماشا دیکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ سیاستدان دیوار پر لکھی تحریر پڑھ چکے ہیں کہ “یہ کمپنی نہیں چل سکتی” انہیں کیا پڑی ہے کہ کمپنی کی بندش کا الزام اپنے سر لیں۔

جنہوں نے کمپنی میں سرمایہ کاری کی وہی کمپنی کے دیوالیہ ہونے کے زمہ دار ہیں اور اب مکاری سے کمپنی اپوزیشن کو سونپ کر بھاگنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ 

سیاستدان کوئی بچے تھوڑی ہیں کہ وہ جھانسے میں آئیں گے۔  ان کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ “خود ہی لائے تھے خود ہی بھگتو اور عوام کو جواب بھی دو ،کوسنے اور بددعائیں بھی لو اور اپنی سوغات کو مزا بھی چکھو۔

سیاستدانوں نے چپکے سے قول و قرار کر رکھا ہے کہ ہاتھی کو گنے کے کھیت میں جانے کی اجازت اس وقت دیں گے جب ہاتھی اچھے بچوں کی طرح رہنے کا وعدہ کرے گا اور اس طرح زندگی گزارنے کی ضمانت دے گا جس طرح مہذب جمہوری ریاستیں زندگی گزارتی ہیں  ۔ ہاتھی بات نہیں مانتا تو ہاتھی جانے اور اجڑا ہوا گنے کا کھیت ہمیں اس سے کیا۔

The views expressed above are the writer’s own and are not those of The Thursday Times.

  1. zabrdat ……must read words….bhut gherai sy majooda halaat ki akaasi ki hy…bhut km logon ka dhiyan is pehloo ki tarf hy…bhaga bhaga k maarny ka irada hy ,r waqai aisa kr rhy hen…

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: