Security forces have dismantled smuggling and terrorist networks. The Pakistan–Saudi defence pact is not directed against any third party. Pakistan has no intention of recognising Israel. All partnerships in minerals, port investments, and international cooperation will be pursued strictly in line with national interest.
سیکیورٹی فورسز نے اسمگلنگ اور دہشت گرد نیٹ ورکس کو بڑی حد تک توڑ دیا ہے۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں بلکہ دفاعی صلاحیت مضبوط کرنے کے لیے ہے، پاکستان نے اسرائیل کو قبول نہیں کیا، نا اس حوالے سے پاکستان میں کوئی سوچ ہے۔ معدنیات، بندرگاہی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی شراکت داری صرف قومی مفاد کے تحت ہوں گی۔
Pakistan has announced a "new normal," warning that any fresh aggression will be met with a swift, decisive and devastating response. ISPR warned that India seems to have forgotten the losses it suffered, including destroyed fighter jets and the potency of Pakistan’s long-range strike capabilities.
پاکستان نے اپنا "نیا نارمل" متعارف کرا دیا ہے؛ کسی بھی نئی جارحیت کی صورت میں جوابی کارروائی تیز، فیصلہ کن اور تباہ کن ہوگی۔ عوام اور مسلح افواج دشمن کے ہر کونے تک لڑائی لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بھارت شاید اپنی تباہ شدہ جنگی طیاروں اور پاکستان کے دوررس ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کو بھول چکا ہے۔
Hamas has announced conditional agreement to President Trump’s Middle East peace proposal, pledging prisoner exchanges, humanitarian access and a transfer of Gaza administration to an independent Palestinian body.
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
عجیب این آر او ھے جن کو ضرورت ہے وہ لینے کا تردد تک نہیں کرتے جبکہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ اپنی این آر او اپنے پاس ھی رکھو لیکن شعور سے محروم قبیلے میں پھر بھی این آر او بیچنے کی آواز لگ رھی اور “سودا” بھی کسی حد تک بک رہا ہے۔ دو ھزار اٹھارہ کے فتنہ انگیز انتخابات کے بعد عمران خان اقتدار کی چوکھٹ پر کھڑے ہوئے تو دو نہیں بلکہ ایک پاکستان کے ساتھ ھی این آر او نہیں دوں گا کا نعرہ مستانہ بھی بلند کیا جس کی بے معنی اور بے مراد گردان ابھی تک جاری و ساری ھے حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ این آر او کی بارش “حلیف قریوں” میں چھما چھم اور مسلسل برس رھی ھے جس سے “ان” کی کھیتیاں سرسبزی و شادابی کا کا ایک مثال بن چکے ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ھے کہ تاریخ کے دلیر ترین منصف جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم کی عدالت سے تاریخ کو درست سمت میں موڑ دینے اور آئین و قانون کی سربلندی اور یکساں عملداری والا وہ فیصلہ برآمد ہوتا ھے جو ازل سے بد بختی کی تمازت میں سلگتے اس قوم کے لئے خوش رنگ موسموں اور تازہ ہواوں کا یہ سندیسہ لئے ہوتا ھے کہ اب اس ملک پر کوئی آمر مسلط نہیں ہوگا عوام کا منتخب وزیراعظم نہ پھانسی چڑھے گا نہ قید و بند اور جلا وطنی کاٹے گا پارلیمان کی توقیر بڑھے گی تمام ادارے اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے اور عدالتیں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی یکساں انصاف اور دلیری کی اس توانا فیصلے کو ایک تابندہ روایت بناتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔
لیکن ہوا کیا؟ دو نہیں ایک پاکستان کا علمبردار عمران خان این آر او کا بد رنگ پھریرا لہراتے ہوئے “دوسرے پاکستان” کی خاطر پرویز مشرف کے دفاع میں نکل آیا اور قوم کو اپنی اوقات یاد دلاتے ہوئے نہ صرف ایک مجرم کو بچا کر لے گیا بلکہ فیصلے اور عدالت تک کو اڑانے میں وہ کردار ادا کیا جو شیخ رشید اور فردوس اعوان جیسے لوگ بھی ادا کرتے ہوئے شرما جائیں۔ اور پھر جہاں نگاہ پڑے وھاں وزیراعظم عمران خان کے حلیف منطقوں میں این آر او کی ایک فصل لہلہا رہی ہے۔
چینی اور آٹے کی بحران سے قطاروں میں کھڑے عوام کی چیخوں اور بددعاوں نے ایک قیامت برپا کر دی اور بالآخر “مجرموں” کا تعین بھی ہو گیا لیکن خان صاحب نے حسب معمول عوام کو چند جذباتی لولی پاپ دینے کے بعد جہانگیر ترین سے خسرو بختیار تک سب مہربان دوستوں پر این آر او کی ایسی بارش برسا دی کہ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ دکھائی دیا نہ خنجر پر کوئی داغ۔ عمران کابینہ کے ایک اھم رکن رزاق داوود کا نام مھمند ڈیم سکینڈل کے حوالے سے سامنے آیا تو سب کچھ اس بد بخت این آر او کی غلاف میں لپیٹ دیا گیا جس کے بظاہر سب سے بڑے مخالف تو عمران خان ہیں لیکن درحقیقت اسی این آر او نہیں دوں گا کی تکرار کو وہ اپنا سب سے بڑا سیاسی ھتیار بھی بنائے ہوئے ہیں۔
یہ خان صاحب کی اسی فتنہ انگیز این آر او کی جادوگری ھی ھے کہ قرضوں میں جکڑے اس غریب ملک کے عوام کے لئے دوائیں راتوں رات پانچ سو فیصد مہنگی ہو جاتی ہیں تو انگلیاں عمران کابینہ کے وزیر صحت عامر کیانی کی طرف اٹھنے لگتی ہیں لیکن این آر او کا سب سے بڑا مخالف اور عامر کیانی طبقے کا “ڈٹا ہوا” لیڈر عمران خان انہیں فورا “ایک سائیڈ پر لے جا کر ” این آر او کی پناہ گاہ فراہم کر دیتا ھے۔ تقریبا یہی صورتحال اگلے وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے حوالے سے بھی ھے۔ خان صاحب کی مشہور زمانہ این آر او سیریز کا یہ ڈرامائی باب بھی ملاحظہ ہو کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سزا سنانے والا جج ارشد ملک خود یہ اعتراف کرتا ھے کہ میں نے سزا جرم پر نہیں بلکہ دباو کے تحت سنائی تھی لیکن عمران خان پھر بھی قائل نہیں ہوتے اور دن رات چور چور کی گردان جاری رکھتے ہیں لیکن جب ایک صحافی تمام تر شہادتوں اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ اربوں روپے کا پا پا جونز پیزا سکینڈل سامنے لے آتا ھے اور پورے ملک میں اس خوفناک کرپشن کے خلاف کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتا تو این آر او کا سب سے بڑا “دشمن “عمران خان نہ صرف کاغذ کا ایک سادہ سا رقعہ دیکھ کر فورا ملزم کی بے گناہی پر قائل ہو جاتے ہیں بلکہ کمال شفقت کے ساتھ این آر او کا سائبان فراہم کرتے ہوئے” کام جاری رکھنے کا حکم بھی جاری کرتے ہیں۔
کئی پارٹیاں بدل کر اشارہ ابرو پر تحریک انصاف کے خیمے میں پڑاؤ ڈالنے اور وزارت اعلی کے بعد وفاقی وزارت حاصل کرنے والے پرویز خٹک مالم جبہ بی آر ٹی اور سونامی بلیئن ٹری جیسے میگا کرپشن سکینڈلز سامنے آنے کے بعد بھی عمران خان کی طرف سے فراہم کردہ اس این آر او کی رت پر سوار ہیں جو کرپشن کی دلدل میں لتھڑے عمران خان کے ھر سہولت کار اور ساتھی کو میسر ہے۔ اور تو اور این آر او کی اس مسلسل برستی بارش سے عمران خان کا گھر بھی سیرابی اور شادابی کی نعمت سے محروم نہیں رھا سلائی مشینوں سے فارن فنڈنگ کیس تک این آر او کا ایک طویل سلسلہ لطف و کرم ھے۔ نہیں معلوم کہ این آر او کے حوالے سے سب سے سخی اور کشادہ دست عمران خان بار بار یہ ذکر کیوں کرتے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا غالبا یہ خان صاحب کا ان ھی دنوں تکیہ کلام بن گیا تھا جب ایک فتنہ انگیز کنٹینر کسی اناڑی ڈرائیور کے سبب ھماری تہذیب سیاست اور جمہوریت پر چڑ دوڑا ٹھا اور پھر ایک احساس جرم نے اس بدبخت لمحے کی یاد اور ادا کئے گئے الفاظ ذھن اور زبان پر چھوڑ دیئے تھے۔ ایسی یادوں یا الفاظ سے عام طور پر چھٹکارا پانا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا اور پھر خان صاحب تو ویسے بھی اپنے ذھن اور حافظے پر قابو پانے میں بہت حد تک کمزور ہیں کیونکہ اس حوالے سے جرمنی اور جاپان کے بارڈر سے رعونییت تک ایک طویل سلسلہ ہے۔
نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔
آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔