Security forces have dismantled smuggling and terrorist networks. The Pakistan–Saudi defence pact is not directed against any third party. Pakistan has no intention of recognising Israel. All partnerships in minerals, port investments, and international cooperation will be pursued strictly in line with national interest.
سیکیورٹی فورسز نے اسمگلنگ اور دہشت گرد نیٹ ورکس کو بڑی حد تک توڑ دیا ہے۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں بلکہ دفاعی صلاحیت مضبوط کرنے کے لیے ہے، پاکستان نے اسرائیل کو قبول نہیں کیا، نا اس حوالے سے پاکستان میں کوئی سوچ ہے۔ معدنیات، بندرگاہی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی شراکت داری صرف قومی مفاد کے تحت ہوں گی۔
Pakistan has announced a "new normal," warning that any fresh aggression will be met with a swift, decisive and devastating response. ISPR warned that India seems to have forgotten the losses it suffered, including destroyed fighter jets and the potency of Pakistan’s long-range strike capabilities.
پاکستان نے اپنا "نیا نارمل" متعارف کرا دیا ہے؛ کسی بھی نئی جارحیت کی صورت میں جوابی کارروائی تیز، فیصلہ کن اور تباہ کن ہوگی۔ عوام اور مسلح افواج دشمن کے ہر کونے تک لڑائی لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بھارت شاید اپنی تباہ شدہ جنگی طیاروں اور پاکستان کے دوررس ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کو بھول چکا ہے۔
Hamas has announced conditional agreement to President Trump’s Middle East peace proposal, pledging prisoner exchanges, humanitarian access and a transfer of Gaza administration to an independent Palestinian body.
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
پینتیس سالہ سیاہ فام جینٹ لیسلی کک انیس سو اسی کے عشرے میں عالمی شہرت یافتہ اخبار واشنگٹن پوسٹ سے انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ کی حیثیت سے وابستہ تھی۔ چونکا دینے والی خبروں کی تلاش میں اسے بہت مہارت حاصل تھی۔ جینٹ لیسلی کک کے قارئین بے چینی کے ساتھ اس کی سٹوری کے منتظر رہتے اور وہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی چونکا دینے والی کہانی سامنے لے آتی۔ انھی دنوں واشنگٹن پوسٹ میں “جمی ز ورلڈ” کے نام سے جینٹ لیسلی کک کی ایک سٹوری چھپی۔ جس میں اس نے آنڈریا واشنگٹن میں مقیم ایک آٹھ سالہ بچے کے بارے میں بتایا کہ وہ ہیروئن کے نشے کا عادی ہے مزید بتایا کہ یہ بچہ (جمی) اپنی ماں اور اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتا ہے اور وہ دونوں خود بھی نشے کے عادی ہیں۔ جمی کو پانچ سال کی عمر میں اپنی ماں کے بوائے فرینڈ نے نشے پر لگایا تھا اور وہ گزشتہ تین سال سے نشے میں مبتلا ہے۔
اس سٹوری نے ایک طرف امریکہ کی سماجی اور اخلاقی زندگی کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری طرف جینٹ لیسلی کک بحیثیت صحافی راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچی لیکن کچھ دنوں بعد واشنگٹن پوسٹ میں پبلک انکوائری افسر بل گرین کو کچھ اطلاعات ملیں تو اس نے جینٹ کک کی سٹوری کے بارے میں انوسٹی گیشن شروع کی۔ چند دنوں بعد بل گرین نے اخبار انتظامیہ کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں اس سٹوری کو ثبوتوں کے ساتھ مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ثابت کیا تھا۔
اخبار انتظامیہ نے اسی دن جینٹ لیسلی کک کو نہ صرف برطرف کر دیا بلکہ اسے دیے گئے تمام ایوارڈز بھی منسوخ کر دیے اور پھر وہ دن اور آج کا دن جینٹ لیسلی کک صحافت کی دنیا میں کہیں دکھائی ہی نہ دی۔ یہ تمھید میں نے اس لئے باندھی کہ اُن ملکوں کی کامیابی اور ترقی کے اہم رازوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں صحافت سچائی، پروفیشنلزم اور شدید محنت کی بنیادوں پر کھڑی ہے جو معاشرے کو صحیح راستہ دکھانے موٹیویٹ کرنے اور خیر اور شر میں تمیز کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ جو جھوٹ، فریب، ظلم اور نا انصافی کو اُکھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ساتھ ساتھ عوام کی ذھنی تربیت بھی کرتی رہتی ھے جس سے ایک فلاحی اور مبنی بر انصاف معاشرے کا قیام وجود میں آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں متضاد اور منفی رخ میں سفر کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہماری صحافت رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی والی صورتحال سے دو چار ہے۔ کیونکہ ایک مخصوص گروہ کی اجارہ داری اور ذاتی مفادات نے نہ صرف اسے جکڑ رکھا ہے بلکہ اس سے اچھے نتائج کی بجائے مسلسل منفی پروپیگنڈہ اور مخصوص ایجنڈے ٹپک رہے ہیں جو کسی طور تعمیری صحافت کے زمرے میں نہیں آتا۔
آپ الیکٹرانک میڈیا کا کوئی بھی چینل کھول دیں وھاں سالہا سال سے مخصوص چہرے “اینکر اور سینئر تجزیہ نگار کا سرکس” سجائے دکھائی دیں گے۔
معیار کم از کم یہ تو ہرگز نہیں کہ مطالعے مشاھدے اور طرز تحریر نے مواقع فراہم کیے بلکہ معیار یہی ٹھرا کہ “مالکان” کے ساتھ روابط اچھے رکھیں اور دیئے گئے ایجنڈے کے مطابق صبح و شام اول فول بکتے رہیں۔ اگر چہ عطاء الحق قاسمی سہیل وڑائچ اور جاوید چودھری جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو تصنیف و تالیف اور مطالعے کی بنیاد پر اس پیشے سے منسلک ہیں لیکن بد قسمتی سے عمومی طور پر ایسا نہیں بلکہ سچائی اور خبر کی بجائے اپنے اپنے ایجنڈے سمیت ہر کوئی ہمارے سر پر سوار ہے کیونکہ مرے ہوئے والد کا انگوٹھا لگانے سے فراڈ مقدمے میں جیل کاٹنے تک اور ٹی وی سکرین پر ملک کے سب سے بڑے نو سرباز رائل سٹیٹ ٹائیکون سے پیسے مانگنے سے روز روز جھوٹ ثابت ہونے تک کے باوجود بھی کسی کو جینٹ لیسلی کک نہیں بنایا جاتا۔
کسی تلخی کی طرف جانے کی بجائے وقت کے تیور اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئیے چند تجاویز کی طرف جانا ہی بہتر بات ہوگی۔
اس وقت ایک بڑا سچ یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں پر ہوتی ڈرامہ بازی کو نہ صرف عام لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ سب سے زیادہ تنگ بھی اسی سے آئے ہوئے ہیں (کسی کو اس بات میں شک ہو تو بے شک سروے کروا کر دیکھ لیں) دوسری بات یہ کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ الیکٹرانک میڈیا کارکردگی کے حوالے سے بہت پیچھے رہا اور وقت کے تقاضوں (ایماندارانہ تفتیشی صحافت اور نئے آئیڈیاز کی تلاش) کے مطابق چلنے کی بجائے ایجنڈوں یا چند افراد کی مفادات کے گرد گھومنے لگا۔ ظاھر ہے کہ نیوز چینلز کو بند تو نہیں کیا جا سکتا اس لئے نئی قانون سازی ہی بہترین راستہ ہے جس کے تحت کسی بھی اینکر یا تجزیہ نگار کے لئے مہینے میں مخصوص وقت کا تعین کیا جائے یعنی سکرین پر آنے کے لئے اتنے منٹس یا گھنٹے ہوں گے جبکہ باقی وقت نوجوان صحافیوں کالم نگاروں دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو دیا جائے۔ بلکہ میں تو ذاتی طور پر اس بات کی حمایت کروں گا کہ دوسرے جابز اور اداروں کی مانند یہاں بھی سخت امتحان اور ٹسٹ کا طریقہ کار لاگو کیا جائے جو تجربے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور انداز تحریر سے بھی منسلک ہو۔ جس کا اھتمام وزارت اطلاعات اور میڈیا ہاؤسز مشترکہ طور پر کرے۔
اس فیصلے سے ایک طرف نئے لکھنے والوں اور گمنام صحافیوں کو مواقع بھی ملیں گے اور دوسری طرف نئے آئیڈیاز کو راستہ بھی ملتا جائے گا۔ ساتھ ساتھ ریسرچ طرز تحریر پروفیشنلزم اور محنت کو بھی معیار بنایا جائے اور اس کی مناسبت سے الیکٹرانک میڈیا پر وقت کی تقسیم کی جائے۔ اس اقدام کے ساتھ سوشل میڈیا بھی غل غپاڑہ سے نکل کر راہ راست پر آتا جائے گا کیونکہ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو سوشل میڈیا پر مچی ہوئی ہڑبونگ اصل میں الیکٹرانک میڈیا کا رد عمل ہی ہے کیونکہ عام آدمی کے پاس جھوٹ اور بہتان طرازی کا جواب دینے کے لئے صرف یہی سوشل میڈیا کا فورم ہی تو ہے۔
جب الیکٹرانک میڈیا پر نئے لوگ جدید آئیڈیاز کے ساتھ آئیں گے تو عوامی سطح پر اس کا اثر بھی حد درجہ مثبت اور تعمیری ہوگا۔
ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ گمنامی اور ناپرسانی کے اندھیروں میں پڑے کئی بہترین صحافی کن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن گمنامی اور بے روزگاری انہیں چاٹ رہی ہے۔ لیکن بات پھر وہی کہ پارلیمان سے اداروں اور وزیراعظم سے چپڑاسی تک رگیدنے والے سکرینوں کے ڈیڑھ درجن ٹھیکیدار راستہ چھوڑیں تو تبھی لوگ تازہ ہواؤں اور اُمڈتی ہوئی روشنی کا لطف اُٹھا سکیں۔ وزیراعظم عمران خان خود بھی کئی بار اس حوالے سے پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ انہیں خود بھی صحافت کے حوالے سے بہت سی ان کہی کہانیوں کا علم ہے اس لئے مناسب وقت ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی طرف پیش رفت کی جائے اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو یقیناً عوام سمیت تمام طبقوں کی مضبوط تائید اور حمایت بھی حاصل ہوگی اور وہ آسانی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے۔
!کام کوئی اتنا مشکل بھی تو نہیں قانون سازی کریں اور پیمرا کو موثر بنائیں نتائج حیران کن اور خوشگوار ہی نکلیں گے۔ البتہ لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور رعب داب ہاتھ سے نکلیں گے تو ڈیڑھ درجن افراد کی چیخیں آسمان سر پر اُٹھالے گی لیکن کیا فرق پڑتا ہے جب جینوئن لوگوں کو حق بھی ملے اور پورے ملک کے عوام سکھ کا سانس بھی لیں گے تو وزیراعظم عمران خان اور حکومت بلا شبہ مضبوط عوامی حمایت اور اخلاقی برتری کی پوزیشن میں ہوں گے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ شخصیت پرستی اور صحافت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا کیونکہ جب تک مکروہ پیشے کی فطرت رکھنے والے لوگ اس پیغمبرانہ پیشے یعنی صحافت پر حاوی رہیں گے تو ملک و قوم کے ساتھ وھی کچھ ہوتا رھے گا جو آج تک ہوتا رہا ھے۔
نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔
آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔