بات شروع ہوتی ہے 2014 سے یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ ن حکومت بنا چکی تھی اور تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی موجودہ وزیراعظم عمران خان انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے اس کے ساتھ ساتھ مقتدرحلقوں کووہ پاور طاقت حاصل نہیں ہوئی تھی جسکو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے اور جو اصل مسئلہ تھا یعنی پوری پاورحاصل کرنے کا جس سے نواز شریف نے انکار کردیا تھا۔
اسکے بعد سب نے دیکھا کہ پہلے دھرنا نمبر ایک ہوا جس نے پورے ملک کوانتظار فرمائیے پرلگا دیا اسکے بعد دھرنا نمبر دو ہوا پھر پانامہ آگیا جب اس میں سے بھی کچھ نہ نکلا تو پھر اقامہ نکال کرنوازشریف کو نااہل کرکے حکومت سے بے دخل کردیا گیا۔
خیر بات ہورہی تھی پوری پاور لینے کی تو 2018 انتخابات تک نہ عمران خان اور نہ ہی مقتدر حلقوں کو پوری پاورمیسر آئی تھی لیکن اسکے باوجود ان انتخابات کو مینج کرلیا گیا اور بدنام زمانہ آرٹی ایس سسٹم کو بٹھا کر کیسے مرضی کے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے گئے۔
ان الیکشن کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ن اور اپوزیشن باہر نکلتی بھر پور احتجاج کرتی اور الیکشن چوری کیے جانے پردھاندلی پر بھرپورمزاحمت کرتی لیکن ملک وقوم کے وسیع ترمفاد میں ایسی کوئی بات نہ کی گئی۔
وقت گزرتا رہا اسکے بعد گلگت بلتستان کے الیکشن ہوئے ان میں سرعام عوام کے ووٹ کےتقدس کی پامالی ہوئی الیکشن مینج کرکے جی بی کو بھی فتح کرلیا گیا اس موقع پر ایک مرتبہ پھرکچھ پریس کانفرنسز ہوئیں میڈیا کی حد تک بیانات آئے لیکن دھاندلی پرکوئی خاطرخواہ ری ایکشن نہ آیا۔
پھر ملک میں کچھ ضمنی انتخابات ہوئے جس میں ن لیگ اور اپوزیشن نے کچھ مزاحمت دکھائی توالیکشن مینج کرنے پر ہاتھ ہولا رکھنا پڑ گیا لیکن اس دوران اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں پڑتی دیکھی گئیں جنکے بعد حالیہ کشمیر الیکشن ہوئے جن میں ایک مرتبہ پھرخفیہ ہاتھ حرکت میں آیا اورمرضی کے نتائج حاصل کرلیے گئے ان الیکشن رزلٹس کے بعد ایک مرتبہ پھر پریس کانفرنسز ہوئیں اسلام آباد جانے کی باتیں کی گئیں کہا گیا کہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی ہے اور پھروہی خاموشی۔
انتخابات 2018 سے لیکر اب تک یہ تیسرا موقع ہے جب مقتدر حلقوں کیجانب سے الیکشن مینج کرکے اپنی مرضی کے رزلٹس حاصل کیے گئے ہیں اگر یہ ہونہی چلتا رہا تو جنرل الیکشن 2023 جو اب صرف دو برس کے فاصلے پر ہیں انکے نتائج بھی کچھ مختلف آتے دکھائی نہیں دیتے۔
انتخابات 2018 میں تو ان حلقوں اور موجودہ حکومت کے پاس مکمل پاور موجود نہیں تھی اسکے باوجود الیکشن مینج کرلیے گئے اور اب جب سرکاری ادرارے بیوروکریسی مقتدرحلقے قانون نافذ کرنیوالے اداروں سمیت سب انکے کنٹرول میں آگئے ہیں تو پھر 2023 انتخابات کو مینج کرنا انکے لیے کتنا سہل ہوگا
اس سے نبٹنے کیلئے کیا کوئی اسٹریٹیجی بنائی گئی ہے یادرہے ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہ بھر پور پراپیگنڈہ اور پبلک ریلیشنزکا دور ہے حکومت یا وزیراعظم کیجانب اپوزیشن اور خصوصا ن لیگ پرکوئی الزام لگا دیا جاتا ہے تواس الزام کا جواب دیتے اپنی صفائیاں دیتے ہی کئے ہفتے بلکہ کئی بار تو کئی ماہ گزر جاتے ہیں اور جب تک اس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے وہ پراپیگنڈہ اپنا اثر دکھا چکا ہوتا ہے اور آخر میں وزیراعظم یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ وہ تو میرا سیاسی بیان تھا۔
پراپیگنڈہ کا جواب بھرپورپراپیگنڈہ سے دینا ہوگا بلکہ اسکو پیشگی استعمال کرنا ہوگا پبلک ریلشنزکوپروفیشنلی استعمال کرنا ہوگا عوام کی طاقت کونہ صرف جلسوں میں اور الیکشن میں استعمال کرنا ہوگا بلکہ اسکواس پراپیگنڈہ کا توڑ اوربھرپورانتخابی مارکیٹنگ کے طور پر استعمال کرنا ہوگا صرف سوشل میڈیا پوسٹس ٹویٹ سے یہ مسئلہ حل ہونیوالا نہیں ایک پروفیشنل ٹیم بنانا ہوگی وہ پروفیشنل ٹیم جسکو پراپیگنڈہ پبلک ریلیشنز ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ڈیجیٹل مارکیٹنگ ڈیٹا انالسس میں مکمل مہارت حاصل ہوجومخالفین کے پراپیگنڈہ کا بھر پور جواب دینے کیساتھ ساتھ پارٹی اسکی لیڈر شپ اور بیانیہ کی بھرمارکیٹنگ بھی کرسکیں۔
اس سب کیلئے ایک بھر پور اسٹریٹیجی بنانا ہوگی بڑے بڑے جلسے اور ان میں تقاریر بہت ضروری ہیں جن سے عوام موبلائز ہوتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اسٹریٹیجی پراپیگنڈہ اسٹریٹیجی ڈیجیٹل مارکیٹنگ اسٹریٹیجی بھی بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ پراپیگنڈہ اب بہت زیادہ سٹرانگ ہوگیا ہے مخالفین کے ہر وقت چور ڈاکو چورڈاکو کی لگائی رکھی گئی گردان پر ن لیگ کا رد عمل آتا تو ہے لیکن بہت ڈیفنسو ہوتا ہے یہ والی روش اب بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
آج کے دور کا الیکشن سائینٹیفک، ماڈرن اور ٹیکنیکل بنیادوں پر لڑا جاتا ہے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سیاسی پروپیگنڈے سے بھرا ہوا ہے جزوی حقائق اور فیک نیوز عوام کی بھرپور توجہ حاصل کرلیتے ہیں ہیں جس سے نبٹنے کیلئے80 یا 90 کی دہائی والی اسٹریٹیجی کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسکا وہ حل ہے اسکے لیے جدید دور کے جدید تقاضوں کیساتھ لیس ہونا ہے۔
موبائل فون خصوصا سمارٹ فونزصارفین کی تعداد پاکستان میں بڑھتی جارہی ہے ہرسمارٹ فون صارف ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرتا ہے اسلئے ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کو بھرپورطریقہ سےاستعمال کرنا اشد ضروری ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا جائزہ۔
اگر دیکھا جائے تو ن لیگ میں مریم نواز نے کافی حد تک جماعت کوموبلائز کیا ہے مزاحمتی بیانیے کولیکروہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خود بھی ایکٹو ہیں اوراپنی ٹیم کو بھی ایکٹو کیا ہے جسکے ساتھ ساتھ والنٹیئرزبھی اپنا کردارنبھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے جسکے لیے دوبرس کی مدت کوئی بہت زیادہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر2023 انتخابات قبل از وقت کرانے کا اعادہ کرلیا گیا توپھر اس صورت میں کیا مسلم لیگ ن انتخابات میں بھرپورطریقہ سے جانے کوتیار ہوگی اور اگر تیاری نہ ہوئی تو پھر شاید نتیجہ گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر والا ہی نکلے گا جس کیلئے ابھی سے بھر پور تیاری کا آغاز ہوجانا چاہیے لیکن بات وہی ہےکہ اس سب کیلئے ایک پروفیشنلز پر مشتمل بڑی ٹیم ہونا چاہیے جسکا کام سیاست کرنا نہیں بلکہ مخالفین کے پراپیگنڈہ کا جواب دینا جماعتی بیانیہ کی بھر پور پروموشن اور مارکیٹنگ (ڈیجیٹل اورروایتی دونوں) طریقوں سے پبلک ریلیشنز اور سرکردہ لیڈران کی میڈیا کمیونیکیشن مینیجمنٹ شامل ہوہر چینل چاہے وہ میڈیا چینل ہو سوشل میڈیا چینل ہو یا کوئی اور ڈیجیٹل چینل سب پر مخالفین کے پراپیگنڈہ کے وار کا جواب دینے کیلئے الگ الگ ٹیم ہونی چاہیے جو انکے پراپیگنڈہ کے وار کو ناکام بنائے زرد صحافت اور فیک نیوزکا توڑ کرے اوراصل حقیقت عوام کے سامنے لائے جسکی مثال 2020 کے امریکی انتخابات ہیں جس میں سوشل میڈیا ایڈورٹائزنگ پرپچھلے دو انتخابات کی نسبت کتنا زیادہ خرچ کیا گیا۔
اسکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر موجود والنٹیرز کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے یہ وہ گمنام ہیروز ہیں جو اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکال کر جماعتی بیانیہ کو بھر پور انداز میں آگے بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں چاہے وہ فیس بک ہو ٹویٹرہو یوٹیوب ہو انسٹاگرام ٹک ٹکا یا کوئی اورڈیجیٹل پلیٹ فارم ان سب کی محنت اور کاوشوں کو سراہنے کی ضرورت ہے ان سب کو ایک ڈائریکشن کی ضرورت ہے کوئی ایسی ٹیم بھی ہونی چاہیے جو ان کو آرگنائز کرے اور ان سے پروفیشنلی انٹرایکشن کرے تاکہ انکی خدمات سے بھرپور استفادہ حاصل کیا جاسکے۔
امریکی سیاسی جماعتوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے ممبران پارلیمنٹ کے ٹویٹر اکاونٹس کا 2009 سے 2019 تک کا جائزہ۔
اگر جماعت ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھرنہ صرف مخالفین بلکہ مقتدرحلقے بھی سوچنے پر مجبورہوجائینگے جوالیکشن سے قبل الیکشن مینج اور الیکشن والے دن آرٹی ایس سسٹم کو سست کردیتے ہیں یا تھکا کر اسکو بٹھا دیتے ہیں کیونکہ جب عوام بولتی ہے تو پھر سب کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔
عوام ن لیگ کے بیانیے کے ساتھ نظرآتی ہے جو نفرت انگیز بیانیہ آٹھ سال سے ن لیگ کے خلاف پھیلایا جا رہا ہے اس کا توڑ کرنے کے لیئے آئیندہ انتخابات تک اب بقیہ دو برس کا وقت اگرچہ بہت کم ہے لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ۔ آپس کے اختلافات کے بجائے گفتگو کا رخ قومی معاملات کی طرف پھیرنا ہی سمجھداری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سمجھداری کی طرف ن لیگ کو کون لے کر آئے گا؟ کون 1980 والی دہائی کی سوچ کو ماڈرن بنائے گا؟
یہی جمہوریت کیطرف بڑھنے کا طاقتور ہتھیار ہے۔