Security forces have dismantled smuggling and terrorist networks. The Pakistan–Saudi defence pact is not directed against any third party. Pakistan has no intention of recognising Israel. All partnerships in minerals, port investments, and international cooperation will be pursued strictly in line with national interest.
سیکیورٹی فورسز نے اسمگلنگ اور دہشت گرد نیٹ ورکس کو بڑی حد تک توڑ دیا ہے۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں بلکہ دفاعی صلاحیت مضبوط کرنے کے لیے ہے، پاکستان نے اسرائیل کو قبول نہیں کیا، نا اس حوالے سے پاکستان میں کوئی سوچ ہے۔ معدنیات، بندرگاہی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی شراکت داری صرف قومی مفاد کے تحت ہوں گی۔
Pakistan has announced a "new normal," warning that any fresh aggression will be met with a swift, decisive and devastating response. ISPR warned that India seems to have forgotten the losses it suffered, including destroyed fighter jets and the potency of Pakistan’s long-range strike capabilities.
پاکستان نے اپنا "نیا نارمل" متعارف کرا دیا ہے؛ کسی بھی نئی جارحیت کی صورت میں جوابی کارروائی تیز، فیصلہ کن اور تباہ کن ہوگی۔ عوام اور مسلح افواج دشمن کے ہر کونے تک لڑائی لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بھارت شاید اپنی تباہ شدہ جنگی طیاروں اور پاکستان کے دوررس ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کو بھول چکا ہے۔
Hamas has announced conditional agreement to President Trump’s Middle East peace proposal, pledging prisoner exchanges, humanitarian access and a transfer of Gaza administration to an independent Palestinian body.
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
تحریر حماد حسن
بتانے میں کیا حرج ھے کہ کل ھی میرا چھوٹا بھائی جو پاک فوج میں ایک اہم عہدے پر فائز ہیں فیملی کے ساتھ ایک رات کےلئے پشاور آیا تو ھم سب رات بھر جاگ کر گپ شپ لگاتے رھے کیونکہ دوسرے دن انہوں نے واپس جانا تھا۔
اگر ذاتی حوالے سے بات کرنے ھی لگا ہوں تو پھر یہ بھی بتا دوں کہ وہ خاتون جنرل بھی میرے گھر سے ھی ہیں جن کی انسان دوستی اور پیشہ ورانہ مہارت کو ایک بہتر مقصد کے لئے استعمال کرنے کی بجائے ان کی شخصیت کو شوبز اور شہرت کی طرف ایک غیر فطری انداز سے دھکیلا گیا جس پر مجھے ذاتی طور پر شدید تحفظات ہیں اور یہ انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی حوالے سے ہیں لیکن ایک نیک نیتی کے ساتھ! بتانا یہی ہے کہ اگر آپ کے گھر کے بہت سارے لوگ اور بہترین دوست کسی مخصوص ادارے سے وابستگی رکھتے ہوں تو فطری طور پر آپ اس ادارے کےلئے ہمیشہ محبت اور ھمدردی کے جذبے ھی سے سوچیں گے اور اس جذبے پر اگر خلوص کا غلبہ بھی ہو تو پھر آپ بوقت ضرورت اختلاف بھی کریں گے اور تنقید بھی کریں گے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ھر کسی سے یہ تقاضا کیا جائے کہ صرف اسی دائرے میں گھومتے رہیں جس میں چاپلوس اور کرپٹ شاہ دولے کے چوہوں کو ٹھونسا گیا ہے اور وہ کھوپڑیوں کی بجائے معدوں اور پیٹ سے سوچنے کے عادی ہو چلے ہیں۔
میجر عزیز بھٹی سے کرنل شیر خان تک کوئی بھی میرا رشتہ دار یا دوست نہیں تھا لیکن ان کا رتبہ اور احترام رشتہ داریوں اور ذاتی دوستیوں سے کئی گنا بڑھ کر بلکہ ایک عقیدت کی مانند ہیں کیونکہ ان جانباز بیٹوں کی چھلنی لاشیں اس لکیر کے اوپر پائی گئی تھیں جہاں میری دھرتی کی طرف بڑھتے ہوئے سفاک دشمن کو انہوں نے ایک دلربا دلیری کے ساتھ پسپا کر دیا تھا۔
اس لئے مجھے یہ سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں اپنی عقیدت بھری محبتوں کو کسی بد ترین آمر کسی غاصب جرنیل کسی جزیرے یا کسی پاپا جونز کے پلڑے میں رکھوں گا بلکہ اس تفریق کو واضح کرتا رہوں گا جس نے میری اس جنوں خیز محبت کو سوالیہ زاویے کی طرف موڑ دیا۔ اگر کوئی اس ملک کے منتخب وزیراعظم پر بندوق تان لے آگر کوئی دھرنے کا ڈرامہ سجا کر جمہوریت اور معیشت کا بیڑہ غرق کرے اگر کوئی نظام انصاف کو وٹس ایپ کا مقید بنا دے
اگر کوئی میرے ووٹ کی تقدس پر آر ٹی ایس سسٹم کو فوقیت دے کر مجھے میری رائے سے محروم کر دے اور آگر کوئی آئین و قانون کو پا مال کرتے ہوئے اپنے آئینی حدود سے تجاوز اور ریاستی نظام میں بے جا مداخلت کرے تو نہ صرف ایک با شعور اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اس کے رتبے طاقت اور پس منظر کی پرواہ کئے بغیر اس کے مقابل آ نا مجھ پر لازم ہے
بلکہ ذاتی اور نفسیاتی حوالے سے اس طرح کا کردار ادا کرنے والا فرد (یا افراد) میرے لئیے اس رقیب روسیاہ کی مانند ھی ہوتا ہے جو میری روشن اور پاکباز محبت پر اپنی خواہشات اور مفادات کا غلاظت انڈیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہاں میں کا صیغہ علامتی طور پر استعمال ہوا حالانکہ اس سوچ کے حامل اس ملک کے وہ تمام شہری بھی ہیں جو شیخ رشید اور شہباز گل ٹائپ سیاست یا گیلے تیتر ٹائپ صحافت (?) کے جھانسے میں آنے کی بجائے شعور اور حقائق کے مطابق اپنی سوچ اور رائے کی تعمیر کرتے ہیں۔ ایک بات اور!
سول سپر میسی کا بیانیہ صرف مسلم لیگ ن تک ھرگز محدود نہیں بلکہ ملک بھر کا وہ اجتماعی شعور بھی اس کی پشت پر کھڑا ہے جن میں سے اکثریت کی وابستگی سرے سے اس جماعت یعنی مسلم لیگ ن سے ہے ھی نہیں بلکہ وہ یا تو دوسری پارٹیوں سے وابستہ ہیں یا سیاسی طور پر غیر فعال ہیں چونکہ سیاسی میدان میں اس سوچ کے علمردار نواز شریف ھی ہیں اس لئے جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کے حمایتیوں کی طاقتور سیاسی لہر نواز شریف کی طرف بہہ کر آئی جو ایک فطری عمل ہے. لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر نواز شریف اپنے بیانیئے سے معمولی سا بھی پیچھے ہٹا تو وہ شاید اپنی جماعت کو تو قائم رکھنے میں کامیاب ہو سکے لیکن جماعت (مسلم لیگ) سے باھر نظریاتی لوگوں کی حمایت سے محروم ہو جائے گا اور یہ سیاسی طور پر ایک خوفناک ناکامی ہوگی اس سلسلے میں شہباز شریف اور مریم نواز کا فکری تضاد اور عوامی سطح پر دونوں کی مقبولیت میں واضح فرق اس کی سب سے بڑی مثال ہے حالانکہ پارٹی کے صدر شہباز شریف ہیں
یعنی سول سپر میسی کا بیانیہ معمولی سی پسپائی اور مصلحت کو بھی گوارا کرنے کے موڈ میں نہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف مسلم لیگ ن کے کارکنوں تک بھی محدود نہیں بلکہ بیانیئے کے حمایتی عام عوام کا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔ گویا دستیاب حالات میں نواز شریف کے پیچھے چلنا اس نظریاتی لاٹ کی مجبوری ہے جن کی فکری وابستگی جمہوریت اور سول سپر میسی ھی سے ہے لیکن لازم نہیں کہ ان کی جماعتی وابستگی بھی مسلم لیگ ن ھی سے ہو۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک کی ایک توانا اور سیاسی طور پر با اثر سوچ بغیر کسی سیاسی اور قومی تعصب یا وابستگی کے ایک نقطے یعنی سول سپر میسی اور آئین و قانون کی بالادستی پر ایک وحدت کی شکل اختیار کر چکے لیکن قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس سوچ پر صرف اصلاح احوال کا غلبہ ہے کسی نفرت اور انتقام کا ھرگز نہیں. حالانکہ موجودہ حکمران نفرتوں کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔
نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔
آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔