spot_img

Columns

Columns

News

پاکستان میں 2007 کے بعد سمندر سے تیل اور گیس کی تلاش دوبارہ شروع، لائسنس جاری

پاکستان نے 2007 کے بعد پہلی بار آف شور تیل و گیس تلاش کے 23 بلاکس کی نیلامی مکمل کر لی ہے۔ چار مقامی کمپنیوں کے کنسورشیم کو لائسنس دیے گئے ہیں جبکہ ترکی کی کمپنی ٹی پی اے او نے بھی شراکت داری اختیار کی ہے۔ ابتدائی سرمایہ کاری 8 کروڑ ڈالر ہوگی جو کامیاب ڈرلنگ کی صورت میں ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

Pakistan awards 23 offshore oil exploration blocks in first bidding round since 2007

ISLAMABAD (THE THURSDAY TIMES) — Pakistan has awarded 23...

King Charles strips his brother, Prince Andrew, of royal titles

King Charles has removed Prince Andrew’s titles, with Andrew now to be known simply as Andrew Mountbatten-Windsor, following renewed scrutiny after Virginia Giuffre’s posthumous memoir; royal warrants have been issued, his lease on Royal Lodge has been surrendered, and he is expected to move to private accommodation on the Sandringham estate.

Pakistan’s first astronauts to train in China for upcoming space mission

China has announced that two Pakistani astronauts will undergo joint training with Chinese crews, with one set to join a short-duration space mission as a payload specialist. The move represents a historic milestone in Pakistan-China scientific and technological collaboration under their expanding space partnership.

چین پاکستانی خلا بازوں کی تربیت کرے گا، ایک خلا باز آئندہ خلائی مشن کے لیے منتخب ہوگا

پاکستانی خلابازی مشن میں نئی پیشرفت؛ دو پاکستانی خلا باز چینی خلا بازوں کے ساتھ مشترکہ تربیت حاصل کریں گے، جن میں سے ایک کو آئندہ مختصر دورانیے کے خلائی مشن کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ یہ تعاون چین اور پاکستان کے درمیان فروری میں طے پانے والے خلائی معاہدے کے تحت عمل میں آیا ہے۔
Commentaryفیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے
spot_img

فیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے

Ammar Masood
Ammar Masood
Ammar Masood is the chief editor of WE News.
spot_img

ملکی سیاست کی کایا اچانک پلٹ گئی ہے وہی جو کل کے فرعون تھے، جن لہجے میں تحکم اور تحقیر جھلکتی تھی، وہی اب معافی کے خواستگار ہیں، وہی جو کل کے ظالم تھے، اب مظلوم بنے دکھائی دیتے ہیں، وہی جو نفرت کا منبع تھے، اب محبتوں کے پھول برسانے کو تیار ہیں۔

یوں لگتا ہے سیاست کی تاش کی بازی اچانک نواز شریف کے ہاتھ میں آ گئی ہے، چاروں “یکے” ان کے ہاتھ میں ہیں، اب ان کی مرضی جو چاہے چال لیں ، جو چاہے برج الٹ دیں، جسے چاہے مات دے دیں، ہر بات نواز شریف کی مانی جا رہی ہے، ہر بات پر قبول ہے، قبول ہے کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔بہت سے لوگ جو اس نئے پاکستان کے بانی تھے ،وہ اب پرانے پاکستان کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں، اب میاں صاحب کی مرضی ہے چاہے وہ بلوچستان میں نئی حکومت کی تبدیلی کا پھر سے عندیہ دے دیں، سینٹ چیئر مین کی کرسی الٹ دیں، وفاق میں تحریک ِعدم اعتماد لے آئیں، پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنا دیں۔ اگر حکم کریں تو پی ٹی آئی کے اندر سے بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے،پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی یا جہانگیر ترین گروپ کو ملک کی جز وقتی سربراہی سونپی جا سکتی ہے،نئےالیکشن پر بھی بات ہو سکتی ہے،تحریک ِلبیک کا معاملہ بھی حل ہو سکتا ہے، فوج کی مداخلت بھی روکی جا سکتی ہے، بندے توڑنے والی سیاست سے بھی توبہ کی جا سکتی ہے، الیکشن والے دن دھاندلی سے بھی اجتناب کیا جا سکتا ہے، “باپ” اور “جی ڈی اے” جیسے اتحادوں سے توبہ کی جاسکتی ہے، سیاست پر پابندی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ عدالتیں بھی جلدی جلدی معاملات نمٹا سکتی ہیں، کل کے گناہ گار، غدار اور کافر پل بھر میں نیک نام ، محب وطن اور دین دار ہو سکتے ہیں۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ اس اسٹیبلش منٹ کے دل میں اچانک میاں صاحب کا درد کہاں سے آ گیا؟ اس اسٹیبلش منٹ نے اچانک جمہوریت کا علم کیسے اٹھا لیا ؟ اس اسٹیبلش منٹ نے اچانک ووٹ کو عزت دینے کی کیوں ٹھان لی، اس اسٹیبلش منٹ کو اچانک پارلیمان کی سپرمیسی کیسے یاد آ گئی،  اس اسٹیبلش منٹ کو اچانک عوام کی کیوں فکر پڑ گئی؟

تین سال پہلے یہی لوگ تھے ،یہی ملک تھا کہ یہاں وقت کا پہیہ الٹا چل رہا تھا، عزتیں اچھالی جا رہی تھیں، نفرت پھیلائی جا رہی تھی ، آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں، قانون کو کھلونے کی طرح استعمال کیا جا رہا تھا، میڈیا کو وٹس ایپ  کے احکامات کی باندی بنا دیا گیا تھا؛ ایسے میں اچانک یہ کایا کیسے پلٹ گئی؟

یہ سب کچھ اب بھی نہ ہوتا  اگر معیشت کے حالات ایسے نہ ہوتے، اگر ڈالر کی پرواز ایک سو اسی تک نہ پہنچ چکی ہوتی، اگر پٹرول کی قیمت ایک سو پچاس لیٹر تک  پہنچنے کا امکان نہ ہوتا، اگر چینی دو سو روپے تک ملنے کا امکان نہ ہوتا، اگر بے روزگاری کی شرح عروج پر نہ جا پہنچتی، اگر غربت لوگوں کو خود کشی پر مجبور نہ کرتی، اگر معیشت اچھی ہوتی تو کسی کو جمہوریت ،نواز شریف یا ووٹ کی عزت یاد نہ آتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تو صرف معاشی تباہی کی ابتدا ہے، آنے والے دن اس سے بھی خوفناک ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کا پیکج نہیں ملتا تو اس ملک میں گاؤں کے گاؤں غربت سے اجتماعی خودکشی کریں گے، پٹرول “ساشے” میں ملا کرے گا اور چینی دانہ بہ دانہ فی درجن دستیاب ہو گی۔ جن کے پاس نوکریاں ہیں وہ بھی بے روزگار ہو جائیں گے، حکومت ِپاکستان کے پاس تنخواہیں دینے کے  پیسے نہ ہوں گے، دفاعی اخراجات کے لیے ملنے والے قرضے بھی ختم ہو جائیں گے، یہ سب کچھ اگلے تین ماہ میں ہو سکتا ہے۔

اس موقع پر تبدیلی لانے والے جمہوریت کے حق میں نہیں ہو گئے بلکہ اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کسی طرح بھی کوئی اور حکومت آ جائے اوران  کی گردن کا پھندہ کسی اور کے گلے میں فٹ آ جائے، لوگ انھیں برا بھلا کہنے کے بجائے کسی اور کو گالیاں دیں  گویا اس طویلے کی بلا جس بندر کے سر ہے وہ قربانی کے لیے کسی اور بکرے کی تلاش میں ہے۔ بس اتنی سی بات ہے، اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہے  انھیں اس نظام سے، نئے پاکستان سے۔

معیشت کے حالات اب ایسے ہو گئے ہیں کہ اب اس کو درست سمت پر لانے کے لیے کئی برس درکار ہیں، بدترین گورنس کی وجہ سے اب بھوک مہنگائی اور غربت کو ختم کرنے کے لیے چند سال تو لگیں گے ، لوگ فوری ریلیف کی توقع کر رہے ہیں جو اب کسی کے اختیار میں نہیں رہا، اب حالات بہت خراب ہو گئے ہیں، اب دیکھنا ہے نواز شریف اس موقع پر اسٹیبلش منٹ کو ریسکیو کرتے ہیں کہ نہیں، ان کے گناہوں کو بوجھ اپنے سر لیتے ہیں کہ نہیں، اس معاملے پر دو مثالیں دینا کافی ہے:

1971ء کے سانحے کے بعد لوگوں میں جنگ میں شکست کی وجہ سے بہت غم و غصہ تھا، لوگ ہتھیار ڈالنے والوں کو قومی مجرم سمجھتے تھے، لوگ پاکستان کو دولخت کرنے کا ذمہ اس وقت کے جرنیلوں کو دیتے تھے، ایسے میں بھٹو نے اسٹیبلش منٹ کی عزت بحال کرنے کا فیصلہ کیا ، ہتھیار ڈال دینے والے قیدیوں کا پھولوں سے استقبال  کیا، ان کا امیج بہتر کیا، ترانے بنوائے  لیکن کیا ہوا؟ اسی اسٹیبلش منٹ نے چھے سال کی قلیل مدت میں اسی محسن کو ایک غلط مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا۔

کارگل کے ایشو پر بھی یہی ہوا، میاں صاحب نے قومی مفاد میں فوج کی عزت بچائی، ان کا اقبال بلند کیا، ان کے امیج کا خیال رکھا، ان کا موروال  ڈاؤن نہیں ہونے دیالیکن کیا ہوا ؟ اسی نواز شریف کو چند ماہ بعد اقتدار سے الگ کر دیاگیا،  قید میں ڈال دیا گیا، جلاوطن کر دیا گیا ، اکیس سال تک سیاست میں شمولیت پر پابندی لگ گئی۔

اب بھی صورت حال وہی ہے معافی کے خواستگار بس اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں، ایک بار یہ نکل گئے تو پھر وہی ہو گا جو ہماری تاریخ کا تاریک حصہ ہے۔

اس بار عام معافی کے اعلان سے پہلے اسٹیبلش منٹ کی جانب سے گناہوں کا اعتراف ضروری ہے، نفرت کے شعار سے توبہ لازم ہے،الیکشن جیتنے کی قبیح رسم کے اجتناب کا اقرار لازم ہے،  کچھ لوگوں کو آئین توڑنے جرم میں نشان ِعبرت بنانا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو چند سال  کےبعد وہی ہو گا جو ہوتا رہا ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: