US Secretary of State Marco Rubio has signalled a broader strategic relationship with Pakistan, expanding cooperation beyond counterterrorism into trade, economic growth and regional stability.
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے۔ تعاون کو انسدادِ دہشت گردی سے آگے بڑھا کر تجارت، معیشت اور علاقائی استحکام تک لے جانا امریکی ترجیحات میں شامل ہے۔
Pakistan’s Chairman of the Joint Chiefs of Staff Committee met Bangladesh’s chief adviser in Dhaka to discuss stronger economic and defence cooperation while highlighting regional security concerns. The visit is being viewed as a significant diplomatic step after more than five decades without a high-level military delegation.
پاکستانی اعلیٰ عسکری قیادت کا 54 برس بعد بنگلہ دیش کا دورہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ڈھاکہ میں چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات۔ دفاعی، تجارتی اور علاقائی تعاون پر اہم گفتگو۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے شاہی فرمان کے ذریعے شیخ ڈاکٹر صالح الفوزان کو سعودی عرب کا نیا مفتیِ اعظم مقرر کر دیا ہے۔ وہ مجلسِ کبار العلما کے چیئرمین اور دارالافتاء و علمی تحقیقات کے سربراہ کی حیثیت سے وزیر کے مساوی عہدہ سنبھالیں گے۔ یہ تقرری سابق مفتیِ اعظم شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کے طویل دور کے بعد عمل میں آئی ہے اور مملکت کی مذہبی قیادت میں تسلسل کی علامت سمجھی جا رہی ہے۔
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
اگر اپنی اقتدار اور طاقت کے حصول کے لئے جھوٹ، فریب، مکاری، بے ایمانی اخلاق باختگی فتوی بازی حرص اور دغابازی کے علاوہ ظلم، قتل عام اور دہشت انگیزی کو کسی ایک ہی جسم میں تلاش کرنا ہو تو پہلا انتخاب حسن بن صباح ہی ہوگا (تاہم نمبرنگ آپ کا اپنا صوابدید ھے ) اس مکار آدمی کا ہنر ہی یہ تھا کہ وہ جھوٹ ایسی روانی اور اعتماد کے ساتھ بولتا کہ کمزور ذہنوں کے لوگ اور جذباتی نوجوان اس سے نہ صرف شدید متاثر ہوتے بلکہ اس کی ہر بات کو اپنے ایمان اور عقیدے کا حصہ بھی بناتے۔
اس بے حس بے ضمیر اور اقتدار کے بھوکے آدمی (حسن بن صباح ) کو طاقت اور اقتدار کی اتنی حرص اور تڑپ تھی کہ اس کے حصول کے لئے اپنے لوگوں، دوستوں اور محسنوں کو تو کیا اپنے بیٹوں تک کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کیا۔ غربت اور گمنامی کے دنوں میں وہ اپنے پرانے ہم سبق اور خراسان کے انتہائی قابل وزیراعظم نظام الملک طوسی کے پاس مدد کے لئے پہنچا تو اس نے پرانی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے محل کا کوتوال مقرر کیا لیکن چند ہی دنوں بعد اس نے اپنے محسن وزیراعظم کے خلاف بھی سازشیں شروع کیں سو یہاں سے بھگا دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ مصر میں نمودار ہوا تو حالات کو دیکھ کر اسماعیلی مذہب اختیار کیا جس کے وجہ سے دربار تک رسائی ممکن ہوگئی، خلیفہ مستنصر کے بیٹے نظار کی حمایت میں سامنے آیا تو ہوشیار اور طاقتور وزیر بدر جمالی کی نظروں میں آیا جس نے پکڑ کر عیسائی لٹیروں کے حوالے کیا مگر چند دن بعد وہاں سے بھاگ گیا اور ایران پہنچا، یہاں قزوین شہر میں ڈیرہ ڈالا اور مذہبی کارڈ کھیلتے ہوئے ایک روحانی بزرگ کا روپ دھارا، رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے خصوصًا خواتین اس بہروپیے پر مر مٹنے لگیں۔ اب جو بھی خوبصورت خاتون اس کے ہاں آتی تو وہ ایک ڈائری میں اس کا نام اور پتہ درج کرتا۔
کچھ دنوں بعد شہر کے نواح میں ایک پہاڑی پر بنا قلعہ پسند آیا تو وہاں قیام کرناشروع کیا کیونکہ اس انتہائی وسیع وعریض قلعے کا مالک اس کا ایک عقیدت مند تھا کچھ عرصہ بعد یہاں مریدوں کی تعداد بڑھنے لگی تو اس نے قلعے کے مالک کو بھی یہاں سے بھگا دیا۔ یہاں اس پر حشیش ( بھنگ ) کا انکشاف ہوا جس سے ایک اور شیطانی منصوبہ اس کے ذہن میں آیا آگے اس نے اس منصوبے کو عملی شکل دینا شروع کیا، چونکہ قلعہ ایک سرسبز و شاداب اور روح پرور جگہ پر تھا اور اس کی وسعت میلوں میں تھی اس لئے ایک بڑے حصّے میں ایک پر اسرار ”جنت“ بنادی گئی۔ جہاں خوبصورت اور پھلدار درخت تالابوں پر جھولتے رہتے طرح طرح کے پرندے ان درختوں پر چہچہاتے اوران تالابوں کے کنارے “حوریں” ٹھل رہی ہوتیں (یہ حوریں وہی خوبرو خواتین تھیں جو اس کی عقیدت مند تھیں اورجنھیں وہ کڑے انتخاب کے بعد اپنی ڈائری میں درج کرتا تھا) اس جنت میں داخلے کے لئے کم عمر اور جذباتی نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا۔ جن کی عمریں بارہ سے سترہ سال کے درمیان ہوتیں۔
ان نوجوانوں کو بھاری مقدار میں حشیش اور بھنگ پلا کر بے ہوش کیا جاتا اور پھر خفیہ راستوں کے ذریعے انھیں ”جنت“ میں چھوڑ دیا جاتا، ہوش آتا تو وہ ایک اپنے آپ کو ایک طلسم کدے میں پاتے یہاں شراب، حشیش اور حوروں کے ساتھ کچھ دن گزرتے اور یہ جادو سر چڑھ جاتا تو پھر سے بے ہوش کرکے شیخ یعنی حسن بن صباح کے سامنے لایا جاتا جو مخصوص طریقوں سے ان نا سمجھ نوجوانوں کے ذہن کو جکڑ لیتا (حسن بن صباح کو ہپنا ٹزم پربھی عبور تھا ) یہیں سے وہ نوجوان ابلیسی ذہن والے حسن بن صباح کے فدائین (خودکش ) بنتے اور دُنیا بھر میں موت بانٹتے پھرتے، ان نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جاتی کہ موت کے بعد آپ مستقل طور پر اس جنت میں چلے جائیں گے جہاں عارضی طور پر آپ نے کچھ دن گزارے تھے۔
عظیم متقی بادشاہ نورالدیّن زنگی سے نظام الملک طوسی تک کتنے بادشاہ اور اکابرین مارے گئے۔ کتنے عالموں مصلحوں اور مخالفین کی گردنوں پر تلواریں اتریں۔ شاید گننے سے بھی باہر۔ ایران کا بادشاہ تنگ آگیا اور حملے کے لئے روانہ ہوا تو ابلیسِ وقت نے اشارہ کیا اور راستے میں بادشاہ کا سر اُڑا دیا گیا جبکہ لشکر نے پسپائی اختیار کر لی۔
حسن بن صباح کی موت کے بعد اس کا بیٹا اس شیطانی سلسلے کا امام بنا اور یوں یہ سلسلہ ڈیڑھ سو سال تک ایک عذاب کی صورت قائم رہا، حتٰی کہ ان سے بھی بڑا فتنہ ہلاکو خان وہاں پہنچا اور قلعے کو ملیامیٹ کرنے کے بعد وھاں موجود تمام سپاہیوں کو پکڑا اور چُن چُن کر تہہ تیغ کیا۔ اور یوں یہ عذاب ایک دوسرے عذاب کے ہاتھوں بالآخر فنا کی گھاٹ اُتر گیا۔
قارئین کرام! میں نے کہانی ختم کردی اب یہ ذمہ داری آ پُکی ہے کہ اپنا اپنا حسن بن صباح اور اس کی جھوٹی جنت بھی تلاش کریں اور اس سے چھٹکارا پانے کا راستہ بھی۔ اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ جھوٹی جنتوں کے دعویدار حد درجہ فریبی مکار اور بے ضمیر ھر دور میں جنم بھی لیتے اور ایک جذباتی جاہلیت ان پر مر مٹنے بھی لگتی ھے. لیکن فطرت کا اٹل اصول یہی ھے کہ سچائی ھی مقدم ھے اسی لئے تو فریب کاری اور جاہلیت دونوں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکے جاتے ہیں جہاں ان پر ہمیشہ نفرت کی مکھیاں بنبناتی رہتی ہیں. ….اور ہاں جھوٹی جنتوں کے خواب فروش’ جذباتی ذہنوں کو جکڑتے’ بے تحاشا جھوٹ بولتے ‘ اقتدار کے بھوکے مذہبی کارڈ کھیلتے اپنے محسنوں کو روندتے اور قدم قدم پر بلیک میلنگ کرتے سارے حسن بن صباح ایک جیسے کیوں ہوتے ہیں ?
نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔
آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔