عمران خان جھوٹ بولنے میں اس قدر مہارت رکھتا ہے کہ اس کے ہر جھوٹ پر لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد آنکھیں بند کر کے یقین کرتی ہے۔ درحقیقت عمران خان ایک فتنہ بن چکا ہے جس کے پیروکار ایمان اور اخلاقی اقدار کو یکسر فراموش کر کے اندھا دھند تباہی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ عمران خان اپنی مفاد پرستی اور انا پرستی میں ایک ہی اصول پر کاربند ہے کہ ہر معاملہ میں اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کیلئے باقاعدہ ایک جھوٹ گھڑنا اور پھر اس جھوٹ کو ڈھٹائی کے ساتھ اس قدر مسلسل بولنا کہ وہ ان لوگوں کو سچ لگنے لگے۔
اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے متعلق بھی عمران خان نے ایک من گھڑت کہانی کا سہارا لے کر اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان کا تحریکِ عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دینا جھوٹ کا پلندہ ہے۔ عمران خان نے ایک من گھڑت کہانی سنا کر فارن فنڈنگ کیس میں فیس سیونگ اور ساڑھے تین سالہ اقتدار کے متعلق سوالات سے فرار ہونے اور تمام معاملات میں کارکنان کو گمراہ کرنے کیلئے ایک جھوٹا بیانیہ سیٹ کیا ہے۔ عمران خان دجل و فریب میں کمال مہارت رکھتا ہے۔
عمران احمد نیازی کے مطابق 7 مارچ کو امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید کو بلا کر پاکستان میں رجیم چینج کے متعلق بات کی اور یہ دھمکی دی کہ اگر پاکستان میں اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو پھر امریکہ پاکستان کو معاف نہیں کرے گا اور اگر یہ تحریک کامیاب ہو گئی تو وہ پاکستان کو معاف کر دے گا۔
یہ من گھڑت کہانی عمران احمد نیازی نے 27 مارچ کو اسلام آباد پریڈ گراؤنڈ میں تحریک انصاف کے جلسہ میں گوڈے گٹے جوڑ کر سنائی اور کہا کہ اسد مجید نے 7 مارچ کو ایک خط بھیج کر امریکی دھمکی کی اطلاع دی۔ یہاں بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ مندرجہ ذیل 5 سوالات اس ساری من گھڑت کہانی کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں لیکن اس کیلئے عقل و شعور کا بیدار ہونا بھی ضروری ہے۔
1. عمران خان جیسا نوسرباز شخص جو ذاتی مفاد اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بناتا ہے وہ 7 مارچ کو ملنے والی اطلاع پر 27 مارچ تک کیوں خاموش رہا؟ عوام کے سامنے یہ انکشاف 8 مارچ کو کیوں نہیں کیا گیا؟ 7 مارچ سے 27 مارچ تک کی خاموشی کیوں؟ اس طویل انتظار کی کیا وجہ تھی؟ آخر 20 دن تک اس قدر اہم معاملہ پر خاموشی کیوں اختیار کی گئی؟
2. جس امریکی معاون وزیر خارجہ ”ڈونلڈ لو“ نے 7 مارچ کو اسد مجید کو دھمکی دی، اسی ڈونلڈ لو کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں 15 مارچ کو منعقد ہونے والی تقریب میں کیوں مدعو کیا گیا؟ اور پھر 16 مارچ کو اسد مجید نے اسی ڈونلڈ لو کا شکریہ کیوں ادا کیا؟ جو آپ کو بلا کر دھمکی دے، آپ اسی کو اپنے ہاں مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دیں اور پھر شکر گزار بھی ہوں، کیا یہ عجوبہ نہیں ہے؟
3. عمران خان کو 7 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کے پیچھے امریکی سازش کی اطلاع ملی مگر وہ 15 مارچ کو اپنی پارٹی کے ایک کنونشن سے خطاب میں ”اللّٰه کا خاص کرم ہوا کہ تینوں اکٹھے ہو کر تحریک عدم اعتماد لائے، میں نے دو نفل مان کر اللّٰه کا شکر ادا کیا، یہ کپتان کے ٹریپ میں آ گئے ہیں“ کیوں کہتا رہا؟ اگر 7 امریکی سازش کی اطلاع موصول ہو گئی تھی تو پھر 15 مارچ کو اس تحریک کو اپنا ٹریپ قرار دینے کا کیا مطلب تھا؟
۔ 4. اگر امریکہ نے 7 مارچ کو دھمکی دی تو عمران خان نے 21 مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی ”او آئی سی – سی ایف ایم“ کانفرنس میں امریکہ کے انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ کو کیوں مدعو کیا؟ اس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹویٹ بھی کیا اور امریکی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ کے ساتھ اپنی تصویر شیئر کی۔ ایسا کیوں؟ جو آپ کے خلاف رجیم چینج کی سازش کر رہا ہے، آپ اسی پر اس قدر مہربان کیوں ہیں؟
5. کیا اسد مجید کی طرف سے لکھا گیا خط یقین کرنے کیلئے کافی تھا کہ امریکہ نے سازش کی؟ عمران خان نے تحقیقات کیلئے امریکہ سے رابطہ کیوں نہ کیا؟ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے احتجاج ریکارڈ کیوں نہ کروایا؟ عمران خان نے اس معاملہ کی تحقیقات کیلئے کوئی ٹھوس قدم کیوں نہ اٹھایا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس قدر اہم معاملہ پر یوں مجرمانہ خاموشی اختیار کی جائے؟
دراصل کوئی دھمکی دی ہی نہیں گئی اور نہ ہی کوئی رجیم چینج کی سازش ہوئی ہے بلکہ عمران خان نے اقتدار ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اپنے پیروکاروں کے سامنے فیس سیونگ کیلئے ایک جھوٹی کہانی گھڑی ہے۔ اس من گھڑت کہانی کے بعد عمران خان کہیں بھی اپنی کارکردگی پر بات نہیں کر رہا اور کرے بھی کیسے جب تباہی و بربادی کے سوا کچھ کیا ہی نہیں ہے۔
پوری قوم جانتی ہے کہ اپوزیشن اتحاد (موجودہ حکومت) نے پہلے دن سے ہی عمران خان کی ووٹ چوری کی پیداوار حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور اس کے خاتمہ کیلئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ایجنڈے میں متعدد آپشنز زیرِ غور رہے جن میں سے ایک ”ان ہاؤس تبدیلی“ بھی تھا۔ مارچ 2021 میں اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کے آپشن کی باتیں سامنے آئیں تو اس معاملہ کو کاؤنٹر کرنے کیلئے عمران خان نے قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا یہ بھی کسی سازش کا حصہ تھا؟
تحریکِ عدم اعتماد کے حوالہ سے اپوزیشن اتحاد کو میاں محمد نواز شریف کی طرف سے منظوری درکار تھی اور اسی وجہ سے سردار ایاز صادق نے لندن میں میاں محمد نواز شریف سے اہم ملاقاتیں کیں اور تمام معاملات سے آگاہ کیا اور میاں صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد خالصتاً اپوزیشن اتحاد کا فیصلہ تھا اور 2018 میں گن پوائنٹ پر تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والے ارکانِ اسمبلی کو واپسی کیلئے صرف میاں صاحب کی طرف سے آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کی یقین دہانی درکار تھی۔ کسی کو خریدا نہیں گیا اور نہ ہی کوئی سازش ہوئی۔
عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی وطن کو تنزلی کی جانب دھکیل دیا اور پھر ساڑھے تین سالہ اقتدار میں ملک و قوم کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ جب عمران خان کو اقتدار ہاتھ سے نکلتا نظر آیا تو فیس سیونگ اور سیف ایگزیٹ کیلئے امریکی سازش کی من گھڑت کہانی والا ڈرامہ رچایا۔
اس ڈرامہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ممنوعہ فارن فنڈنگ میں ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی سے لیے گئے اربوں روپے بھی شامل ہیں، عارف نقوی کے خلاف مقدمہ امریکی عدالت میں ہے۔ امریکہ مخالف بیانیہ اس معاملہ میں بھی کارکنان کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال ہو گا۔
عمران خان کذاب صرف اور صرف جھوٹ بولنا جانتا ہے اور صرف ایک اصول پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہے کہ جھوٹ مسلسل اور اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ بولا جائے کہ لوگوں کو سچ لگنے لگے۔