spot_img

Columns

Columns

News

Zohran Mamdani dominates NYC mayoral race with 95% chance of victory on Polymarket

Zohran Mamdani has emerged as the clear frontrunner in the New York City mayoral race, with Polymarket giving him a 95% chance of victory. The data, based on over $128 million in trading volume, shows a decisive shift in voter sentiment as Mamdani’s progressive campaign continues to outpace Andrew Cuomo and other contenders.

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے پاکستان کی پہلی گوگل کروم بُک اسمبلی لائن کا افتتاح کردیا

نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے ملک کی پہلی گوگل کروم بُک اسمبلی لائن کا افتتاح کرتے ہوئے اسے ڈیجیٹل معیشت کی سمت فیصلہ کن موڑ قرار دیا ہے۔ گوگل کی مقامی موجودگی، ایک لاکھ ڈیویلپرز کی تربیت، گیمنگ و اسٹارٹ اپ پروگرامز اور اے آئی پر مبنی عوامی خدمات کے منصوبے پاکستان میں روزگار، سپلائی چین اور برآمدی صلاحیت کو نئی سمت دیں گے۔

Afghanistan hosting fugitive terrorists, Not Pakistani refugees, says DG ISPR

Pakistan’s military spokesperson, DG ISPR Lt Gen Ahmed Sharif Chaudhry, said that individuals currently in Afghanistan are not Pakistani refugees but fugitive terrorists who fled during counterterrorism operations. He warned that the nexus between political elements, terrorists, and criminal networks remains the biggest obstacle to Pakistan’s war on terror, calling for unified national efforts to dismantle these connections and restore lasting peace.

افغانستان میں موجود افراد پاکستانی مہاجر نہیں بلکہ روپوش دہشت گرد ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

افغانستان میں موجود افراد پاکستانی مہاجرین نہیں بلکہ وہ دہشت گرد ہیں جو انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد وہاں روپوش ہو گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ کچھ سیاسی عناصر اور مجرمانہ نیٹ ورکس کا باہمی گٹھ جوڑ ہے۔

پاک بھارت جنگ کے دوران کراچی پر بھارتی حملے کی خبریں من گھڑت تھیں، بھارتی آرمی چیف

پاکستان اور بھارت مابین جنگ کے دوران کراچی پر بھارتی حملہ سے متعلق پھیلائی گئی خبروں کی کوئی حقیقت نہیں، معلوم نہیں کہ ایسی فیک نیوز کہاں سے آئیں، ہم ایسی گمراہ کن باتیں پھیلانے والوں کو ڈھونڈتے رہ گئے۔
Opinionعمران خان بے نظیر بھٹو سے سیکھ لیں
spot_img

عمران خان بے نظیر بھٹو سے سیکھ لیں

عمران خان کو جلسوں کے دوران سٹیج پر لالٹین تباہ دے اور اسلامی ٹچ کے مشورے دینے والے ”اعلی ذھانت کے حامل“ مشیروں نے ایک مقبول سیاسی لیڈر کو اس طرف دھکیلا جہاں سے گالم گلوچ بہتان طرازی الزامات جھوٹ اور فریب کاری کے علاوہ کچھ برآمد ہی نہیں ہو رہا۔

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

اگر کوئی شخص کسی خوفناک خوش فہمی یا تباہ کن حماقت کی بنیاد پر یہ سمجھنے لگا ہے کہ عمران خان ھر قسم کی طاقت اور اقتدار کے حصول کے مواقع ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان کا سیاسی مستقبل ختم ہو چکا ہے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ وہ شخص پاکستان کی تاریخ سیاست اور گرد و پیش کے سماجی مزاج سے مکمل طور پر نا واقف ہی ہے۔ عمران خان کی سیاست سے اتفاق یا اس کی انتظامی صلاحیت کی داد دینا کسی پروفیشنل صحافی کےلئے فی الحال گو کہ ایک مشکل امر ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے کہ آپ عمران خان کی مقبولیت سے انکار کریں بالکہ ماننا پڑیگا کہ وہ پاکستانی سیاست کے اس مقبول ترین رہنماؤں کی لسٹ میں شامل ہیں جن میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد فاطمہ جناح بھٹو ایئر مارشل اضغر خان (ایک مخصوص وقت تک) بے نظیر بھٹو اور نواز شریف شامل ہیں۔

پورے پاکستان میں صرف سندھ کے علاوہ مرکز پنجاب خیبر پختونخواہ بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے بلکہ اب بھی کئی وفاقی اکائیوں میں عمران خان کی ہی جماعت برسر اقتدار ہے اور سیاسی و انتظامی طاقت بھی انہی کے ہاتھ میں ہے جبکہ ”طاقت کے مراکز“ میں بھی اسے ایک موثر حمایت حاصل ہے جہاں سے اس کی استدلال سے محروم سیاست کو بھی طاقت اور توانائی فراہم ہو رہی ہے جس کی تازہ ترین مثال ایک بے وقت اور بے بصیرت لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی کو انہدام سے بچاؤ کی شکل میں سامنے آئی۔ لیکن کیا کیا جائے کہ خان صاحب نے اس شاندار ”موقع“ کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس بد نما ایجی ٹیشن کی طرف موڑ دیا جس سے پولیس پر حملے اے ٹی ایم مشینیں کاٹنے اور ہرے بھرے درخت جلانے کی سیاست بلکہ حماقت برآمد ہوئی۔ کاش کہ علی آمین گنڈاپور قاسم سوری اور شہباز گل جیسے مشیروں کی بجائے کوئی رجل رشید بھی عمران خان کے آس پاس موجود ہو اور وہ انہیں سمجھا سکیں کہ ان کی مقبولیت کا حجم کیا ہے اور سامنے موجود مواقع کون سے ہیں اور ان دونوں (مقبولیت اور مواقع) کے اشتراک سے سیاسی فوائد کی سمت پیش قدمی کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ہیں۔ کیا اسلامی ٹچ جذباتی نعروں اور سطحی گالم گلوچ کے مشورے دینے کے علاوہ کسی مشیر کو دیکھا گیا جس نے موجودہ حکومت خصوصا پی ٹی آئی کے طاقتور سیاسی حریف مسلم لیگ ن کی پے درپے غلطیوں اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی طرف خان صاحب کی توجہ دلائی ہوْ۔ کس مشیر نے خان صاحب کے کان میں کہا کہ موجودہ حکومت اور برسراقتدار جماعت سیاسی انتظامی اور مالی معاملات میں کہاں کہاں پنجاب کو ضرورت سے زیادہ ترجیح دے کر سیاسی توازن کھو رہی ہے۔ کس مشیر نے انہیں سمجھایا کہ خیبر پختونخواہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت ہے بلکہ سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں بھی ممبران کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔ اس لئے صرف قومی اسمبلی سے استعفے دینا نہ صرف ایک سیاسی حماقت ہے بلکہ اپنے ہی اراکین قومی اسمبلی کے اندر منفی اور لیڈر شپ مخالف سوچ پروان چڑھانا بھی ہے اس فیصلے کا ایک جذباتی عیاشی کے علاوہ فائدہ تو کوئی نہیں لیکن پارٹی کے لئے نقصانات بے حساب ہیں۔

ہیں پورے پاکستان میں صرف سندھ کے علاوہ مرکز پنجاب خیبر پختونخواہ بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے بلکہ اب بھی کئی وفاقی اکائیوں میں عمران خان کی ھی جماعت برسر اقتدار ہے اور سیاسی و انتظامی طاقت بھی انہی کے ھاتھ میں ہے۔ جبکہ”طاقت کے مراکز“ میں بھی اسے ایک موثر حمایت حاصل ہے۔ جہاں سے اس کی استدلال سے محروم سیاست کو بھی طاقت اور توانائی فراہم ہو رہی ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال ایک بے وقت اور بے بصیرت لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی کو انہدام سے بچاؤ کی شکل میں سامنے آئی۔ لیکن کیا کیا جائے کہ خان صاحب نے اس شاندار”موقع“ کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس بد نما ایجی ٹیشن کی طرف موڑ دیا جس سے پولیس پر حملے اے ٹی ایم مشینیں کاٹنے اور ھرے بھرے درخت جلانے کی سیاست بلکہ حماقت برآمد ہوئی۔ کاش کہ علی آمین گنڈاپور قاسم سوری اور شہباز گل جیسے مشیروں کی بجائے کوئی رجل رشید بھی عمران خان کے آس پاس موجود ہو اور وہ انہیں سمجھا سکیں کہ ان کی مقبولیت کا حجم کیا ہے اور سامنے موجود مواقع کون سے ہیں۔ اور ان دونوں(مقبولیت اور مواقع ) کے اشتراک سے سیاسی فوائد کی سمت پیش قدمی کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ کیا اسلامی ٹچ جذباتی نعروں اور سطحی گالم گلوچ کے مشورے دینے کے علاوہ کسی مشیر کو دیکھا گیا جس نے موجودہ حکومت خصوصا پی ٹی آئی کے طاقتور سیاسی حریف مسلم لیگ ن کی پے درپے غلطیوں اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی طرف خان صاحب کی توجہ دلائی ہو۔ کس مشیر نے خان صاحب کے کان میں کہا کہ موجودہ حکومت اور برسراقتدار جماعت سیاسی انتظامی اور مالی معاملات میں کہاں کہاں پنجاب کو ضرورت سے زیادہ ترجیح دے کر سیاسی توازن کھو رھی ھے۔ کس مشیر نے انہیں سمجھایا کہ خیبر پختونخواہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت ہے بلکہ سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں بھی ممبران کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔ اس لئے صرف قومی اسمبلی سے استعفے دینا نہ صرف ایک سیاسی حماقت ہے بلکہ اپنے ھی اراکین قومی اسمبلی کے اندر منفی اور لیڈر شپ مخالف سوچ پروان چڑھانا بھی ھے۔ اس فیصلے کا ایک جذباتی عیاشی کے علاوہ فائدہ تو کوئی نہیں لیکن پارٹی کے لئے نقصانات بے حساب ہیں۔

خان صاحب کو جلسوں کے دوران سٹیج پر لالٹین تباہ دے اور اسلامی ٹچ کے مشورے دینے والے”اعلی ذھانت کے حامل“ مشیروں نے ایک مقبول سیاسی لیڈر کو اس طرف دھکیلا جہاں سے گالم گلوچ بہتان طرازی الزامات جھوٹ اور فریب کاری کے علاوہ کچھ برآمد ہی نہیں ہو رہا ہے۔ عمران خان کے آس پاس اس بیدار مغز اور ذہین مشیروں کو کہاں تلاش کیا جائے جنہیں عوام کی نفسیات کا مشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ خبر تک رسائی بھی ہو اور تجزیئے پر دسترس بھی جو خان صاحب کو مشورہ دے کہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ ن توہین آمیز انداز میں برے وقت کے کس کس ساتھی کو نظر انداز کر رہی ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل کس رہنما کے بعض قریبی عزیزوں نے کہاں کہاں ہاتھ مارنے شروع کئے ہیں۔ نواز شریف کے مقبول بیانیئے یعنی سول سپر میسی کے بخیئے کہاں کہاں ادھیڑے جا رہے ہیں اور شوق اقتدار کی غبار آلود دبیز لہر بیانیئے کو کس حد تک عنقا کر چکا ہے۔ نواز شریف کے مشکل دنوں کے ساتھی اور رفقاء (سیاستدان صحافی دانشور اور سول سرونٹس) تحفظات اور ناراضگی کا شکار کیوں ہیں اور تحریک انصاف اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کی کمزوریاں کون کون سی ہیں اور عوام کن کن مسائل کا سامنا کر رھے ہیں۔ اپنی کمزوریوں کا اعتراف اور ان پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدامات۔ مسائل کے حل کے لئے ہوائی باتوں کی بجائے نئے آئیڈیاز کی تلاش اور سنجیدہ طرز عمل۔ یہ وہ مشورے ہیں جو عمران خان کی سیاسی انہدام کو تعمیر اور اٹھان کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ عمران خان کے ارد گرد بچگانہ حرکتوں اور سطحی سوچوں والے مشیروں کی جگہ وژنری اور سنجیدہ مشیر لےکر عمران خان کی شخصیت اور سیاست کو کامیابی کی طرف موڑ دیں۔

اس”تبدیلی“ پر کچھ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت بھی نہیں کہ عمران خان کا اقتدار بھی چلا گیا اور ایسٹبلشمنٹ کے معتوب بھی ٹھرے کیونکہ تاریخی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔ (اور سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف جیسی موثر”نادانی“ کو مقتدر قوتیں اپنے لئے کسی نعمت سے کم سمجھتے بھی نہیں۔) سو انہیں کھونے کا نقصان کیوں اٹھائیں۔

کیا موجودہ منظر نامے سے موازنہ کرتے ہوئے کسی مشیر نے کبھی عمران خان کو تاریخ کا یہ حوالہ یاد کرواتے ہوئے ان کا ذہن بے سر و پا باتوں سے تجربے اور حقائق کی طرف موڑنے کی کوشش کی کہ کہ انیس سو نوے میں ایسٹبلشمنٹ کے نمائندہ صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے نکالا بلکہ اس کے شوہر آصف علی زرداری پر مقدموں کی بھرمار کر کے جیل میں بھی ڈالا جبکہ سندھ میں بھٹو خاندان کے سفاک دشمن جام صادق کو وزیر اعلی بنوا کر پیپلزپارٹی پر ایک قہر کی صورت نازل کی کی؟

ان برے حالات میں الیکشن ہوئے تو ظاہر ہے کہ پیپلزپارٹی کو صرف پینتالیس قومی اسمبلی کی سیٹیں ملیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ نواز شریف نے پورے ملک میں صفایا کر دیا اور وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ لیکن واقعی بے نظیر بھٹو کیا جہاندیدہ خاتون سیاستدان تھی! چند دن بعد پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا تو بے نظیر نے سختی کے ساتھ اجتماعی استعفوں کا آپشن رد کر دیا اور آکر قومی اسمبلی کی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر”انتظار“ کرنے لگی۔

رفتہ رفتہ مقبول نواز شریف اور آمریتوں کے پروردہ غلام اسحاق ایک دوسرے کے مقابل آنے لگے جس کا فائدہ زیرک بے نظیر بھٹو چابکدستی کے ساتھ اٹھانے لگی۔ اور پھر صرف ڈھائی سال بعد ایک شام غلام اسحاق خان بے چینی کے ساتھ ایوان صدر کی راہداریوں میں ٹہلتے ہوئے بے نظیر بھٹو کا انتظار کرتے رہے۔ بے نظیر قدرے تاخیر سے پہنچیں تو غلام اسحاق خان کے”ملزم“ آصف علی زرداری بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے جس نے بیٹھتے ہی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر صدر اسحاق کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ ہمارے مطالبات سن لیں! اگلا منظر نامہ یوں تھا کہ نواز شریف بھی معزول ہو چکے تھے نئے الیکشن بھی ہو چکے اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم کا حلف بھی اٹھا چکی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مشکل دنوں میں بے نظیر بھٹو کا تدبر اور ذہانت ہی اس کے کام آیا اور یہ یہی وہ ذہانت تھی جس نے شیخ عبد الرشید سے پروفیسر این ڈی خان اور رضا ربانی سے واجد شمس الحسن تک جیسے جہاندیدہ اور مخلص مشیر اس کے اردگرد کھڑے کر دیئے تھے۔

سو عمران خان بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں کئی گنا کم مشکلات کا شکار ہیں لیکن ذاتی ذہانت اور مشیروں کے مشوروں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور عمران یہاں پر مار کھا رہے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ یہی وہ المیہ ہے جو عمران خان کی سیاست کو ایک سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: