راولپنڈی میں مسلم لیگ نواز کے زیرِ اہتمام وکلاء کنونشن ڈے سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں 40 برس سے زائد آمریت رہی ہے، 4 ڈکٹیٹرز آئے جنہوں نے دھونس سے دس دس سال اقتدار پر قبضہ کیے رکھا لیکن کبھی کسی عدالت نے ایک آمر کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کی، طاقت کے آگے بھی سر جھکایا اور آمروں کے آگے بھی سر جھکایا۔ یہ ججز منتخب وزرائے اعظم کو نکالتے رہے اور سزائیں دیتے رہے لیکن کبھی اتنی ہمت نہیں دکھائی کہ کسی ڈکٹیٹر کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیں۔ انہوں نے ہر بار ڈکٹیٹر کو توثیق دی کہ ڈٹ کر حکومت کریں۔ جب بھی نکالا منتخب وزیراعظم کو نکالا، جب بھی دھمکایا منتخب وزیراعظم کو دھمکایا۔
مسلم لیگ نواز کی چیف آرگنائزر کا کہنا تھا کہ ججز پی سی او اور ایل ایف او کے نیچے حلف اٹھا رہے ہوتے تھے تو منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں لے کر جایا جاتا تھا۔ آپ کا زور صرف عوام کے منتخب وزیراعظم پر چلتا ہے، کیا کبھی کسی نے دیکھا کہ کسی ڈکٹیٹر کو ڈان، سسلین مافیا اور گاڈ فادر کا لقب ملا ہو؟ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی جج نے جرأت کا مظاہرہ کیا، سیٹھ وقار، جن کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا کہ انہوں نے ایک ڈکٹیٹر کو سزا سنائی لیکن پھر یوں ہوا کہ اس عدالت کو ہی صفحہِ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ ڈکٹیٹر مشرف اللّٰه کے پاس چلا گیا ہے تو معاملہ بھی اللّٰه کے پاس چلا گیا ہے. مشرف نے سپریم کورٹ کے ججز کو بالوں سے پکڑ کر شاہراہِ دستور پر گھسیٹا اور 40 لوگوں کو نظر بند، اس وقت کون سامنے آیا؟ نواز شریف عوام کا نمائندہ سامنے آیا جس نے عدلیہ کو بحال کیا، ججز کو بحال کیا۔
مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کا کیس چل رہا تھا تو سننے کو ملا کہ چیف جسٹس جذباتی ہو گئے۔ آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا جب ایک منتخب وزیراعظم کو دفتر سے نکالا گیا، اقامے پر سزا دی، بیٹی کو باپ کا ساتھ دینے پر موت کی چکیوں میں ڈالا، رانا ثناء اللّٰہ پر منشیات اسمگلنگ کیس ڈالا گیا، طلال چودھری پر ظلم و جبر کیا گیا۔ اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا جب نواز شریف کا جیتا ہوا الیکشن عمران خان کی جھولی میں ڈالا گیا۔ اس وقت ابھی جذباتی ہونا چاہیے تھا جب ججز کی فیمیلز کو آئین و قانون کی پاداش میں سڑکوں پر چھوڑ دیا گیا، وہ جج قاضی فائز عیسی تھے۔ آپ مقدمہ دیکھ لیں، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض کے ہاتھوں یرغمال بننے سے انکار کر دیا، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے سامنے ڈٹ گئے کہ میں انصاف کا قتل نہیں ہونے دوں گا، اس وقت بھی آپ جذباتی ہوتے۔
مریم نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ تین چار ججز کو ہٹا دیں تو عمران خان کی مقبولیت ختم ہو جائے گی۔ مقبول لوگوں کو جنرل باجوہ اور ثاقب نثار جیسوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کسی نے پلے کارڈ اٹھایا ہوا تھا کہ یہ محبت بھرا ٹرک ہماری بہن مریم نواز کیلئے ہے، ہمارے پاس وہ ٹرک نہیں جو تحریک انصاف کے پاس ہیں، ہمارے پاس تو آئین کا ٹرک ہے، قانون کا ٹرک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان بنانے والوں اور پاکستان بچانے والوں کے پاس آئی ہوں۔ جس جماعت کے پاس وکلاء کا اتنا متحرک ونگ ہو اس جماعت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ میں پاکستان کے آئین کے محافظوں کے پاس آئی ہوں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مسلم لیگ نواز کے پاس اعظم نذیر تارڑ، رانا ثناء اللّٰہ، محسن رانجھا اور دانیال چودھری جیسے وکلاء موجود ہیں۔ جب ہمارے اوپر مقدمات تھے تب میں نے دیکھا تھا کہ آپ سب لوگ ہر پیشی پر موجود ہوتے تھے اور آپ کے پسینے سے عدالت کے فرش گیلے ہوتے تھے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی نے کہا کہ بہت افسوس ہوا جب آپ نے طعنہ دیا کہ کل تک جو جیلوں میں تھے وہ آج اسمبلی میں کھڑے ہو کر تقریریں کر رہے ہیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہم جھوٹے مقدمات میں اس وقت جیلوں میں رہے جب جنرل فیض حمید ججز کو ڈراتا تھا، دھمکاتا تھا، ویڈیوز دکھاتا تھا اور اپنے من پسند فیصلے کرواتا تھا۔ عمران خان ہر ایک کا نام لے گا، جنرل باجوہ کا بھی لے گا لیکن فیض حمید کا نام نہیں لے گا کیونکہ وہ کل بھی سہولت کار تھا اور آج بھی سہولت کار ہے۔ کسی نظریہ کی خاطر جیل جانا تو فخر کی بات ہے، مجھے تو ایک دن بھی جیل میں رہنے کا افسوس نہیں ہے، جن کا کوئی اصول نہیں ہوتا اور جن کی کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہوتی وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے اور اگر نکلتے بھی ہیں تو کالا ڈبا منہ پر لگا کر نکلتے ہیں۔ ایک ایسا گیدڑ جو اپنے آپ کو لیڈر کہتا ہے، کارٹون بنا پھرتا ہے، پیزا ڈیلیوری والا پنک ڈبا کالا کر کے سر پر ڈال کر عدالتوں میں جاتا ہے۔
انہوں نے عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ٹیریان وائٹ کا کیس دیکھ لیں، سب سے بڑا جھوٹ قوم کے ساتھ بولا گیا۔ اقامہ پر نکال سکتے ہیں تو اس کیس پر کیوں نہیں نکال سکتے؟ اگر جھوٹے مقدمات ہوتے تو دو دن کی بات ہوتی، عدلیہ نے اس کو بری کر دینا تھا لیکن یہ جھوٹے مقدمات نہیں ہیں، ان سے نکالنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ عمران خان کو ایک ساتھ بارہ بارہ کیسز میں ضمانتیں مل جاتی ہیں، ان کو دو دو گھنٹوں میں ضمانتیں مل رہی ہیں پھر بھی ایک دوسرے سے گلے لگ لگ کے رو رہے ہیں، ٹی وی چینلز پر آ کر رو رہے ہیں، آنسو بہا رہے ہیں۔ میں جتنا عرصہ جیل میں رہی، میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں بیمار ہوں۔ اعظم نذیر تارڑ گواہ ہیں، ان کو میں نے ہمیشہ کہا کہ مجھے عورت کارڈ نہیں کھیلنا۔ تم نااہلی سے اس کو ڈراتے ہو جو 6 سال کی نااہلی بھگت کر آئی ہے؟
مریم نواز شریف نے کہا کہ ہم نے 200 سے زائد پیشیاں بھگتی ہیں، 150 سے زائد تو میں نے باپ کا ہاتھ پکڑ کر بھگتی ہیں، غلط سزائیں بھی کاٹی ہیں لیکن قانون کے سامنے پیش ہو کر ایک ڈیکورم سیٹ کیا۔ جب سائفر کا جھوٹا ڈٖرامہ کیا گیا تو ایک آڈیو میں پیرنی صاحبہ کہتی ہیں کہ ارسلان بیٹا سب کو غداری میں چھپا دو لیکن جب ہیروں کی چوریاں اور توشہ خانہ کی وارداتوں کا حساب مانگا جائے تو وہ خاتون خانہ بن جاتی ہیں۔ میں نے تو نہٰیں کہا کہ میں پبلک آفس ہولڈر نہیں ہوں، ہمیں کہا جاتا تھا کہ جرم نہیں کیا تو تلاشی کیوں نہیں دیتے؟ ہم نے تو تلاشیاں دیں لیکن پھر منتخب وزیراعظم کو صرف ایک اقامہ پر نکال دیا گیا۔
سابق چیف جسٹس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ثاقب نثار کی آڈیو لیک ہوئی ہے جس میں وہ کہتا ہے مریم نواز کو ٹھوکو، جو ریٹائر ہو کر یہ کہہ رہے ہیں تو سوچیں کہ جب کرسی پر ہوتے ہوں گے تو کیا کچھ کرتے ہوں گے؟ پوری ریاست اور نظامِ عدل کوشش کرتے ہیں کہ عمران خان کورٹ میں پیش ہو جائے مگر یہ پیش نہیں ہوتا، اب پتا چلا کہ سسلین مافیا کیا ہوتا ہے؟ جتھے کون لے کر عدالت نہیں جا سکتا؟ سب سیاسی پارٹیز جتھے لے کر عدالت جا سکتی ہیں۔ پولیس کے اوپر پٹرول بم پھینکو، سر توڑو، آئین توڑو لیکن تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا کیونکہ تم جتھے لے کر آئے ہو۔
اپریل 2022 میں عمران حکومت کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد قرار دینے اور اسمبلیاں توڑنے کے آئین شکن اقدامات کے متعلق کہا کہ سپریم کورٹ نے پانچ زیرو سے فیصلہ دے کر کہا عمران خان آئین شکن ہے اور اس نے آئین توڑا ہے لیکن سزا نہیں ہوئی، کیوں؟ یہ کہتا ہے جج زیبا آپ کو چھوڑوں گا نہیں، اس کا لانگ مارچ جب ناکام ہوا تو اس نے میٹرو اسٹیشنز کو توڑا، گرین بیلٹس کو آگ لگا دی، سپریم کورٹ میں جب ویڈیوز پیش کی گئیں تو بندیال صاحب کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے آنسو گیس کے شیلز سے آگ لگی ہو۔
مسلم لیگ نواز کی چیف آرگنائزر نے مزید کہا کہ آپ چیف جسٹس کے آنے سے پہلے سہولت کاری کر کے عمران خان کو اقتدار میں واپس لانا چاہتے ہیں، اس شخص کو جو صرف یہ سوچتا ہے کہ کسی کا اے سی کب بند کرنا ہے، کسی کا پنکھا کب بند کرنا ہے، آپ انتقام کی آگ میں اندھا ہو جانے والے شخص کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں؟ یہ 2018 نہیں ہے، جو ہونا تھا ہو گیا، اب ہم یہ دوبارہ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ جو آج الیکشن الیکشن کر رہا ہے، 8 مہینوں کے بعد یہ انھی الیکشن کو لے کر رو رہا ہو گا۔سپریم کورٹ نے بار کونسلز اور حکومتی وکلاء کو نہیں سنا، اگر سنا تو تحریکِ انصاف کو سنا اور اسد عمر کو سنا۔ اسد عمر کی بات اس کی پارٹی نہیں مانتی اور آپ اس کو سن رہے ہیں۔
مریم نواز شریف نے کہا کہ مجھے شہباز شریف پر فخر ہے، ملکی معیشت عدم استحکام کا شکار ہے لیکن شہباز شریف نے 10 کروڑ عوام کو فری آٹا دیا ہے۔ عمران خان نے پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کر دیا، معیشت کا ستیاناس کر دیا، پنجاب اور خیبرپختونخوا کا برا حال کر دیا۔ پنجاب میں گوگی، پنکی اور بزدار کا تین رکنی گینگ تھا جس نے کرپشن کے پہاڑ کھڑے کر دیئے۔ نواز شریف سی پیک بناتا رہا اور یہ جی پیک یعنی گوگی پنکی کوریڈور بناتا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم کے سب سے بڑے مجرم فیض حمید اور آصف سعید کھوسہ ہیں۔ جو فیصلہ آپ کے ساتھی جج بھی نہیں مان رہے، آپ چاہتے ہیں کہ قوم وہ فیصلہ مانے۔ ہر بینچ میں وہی تین ججز شامل ہیں اور وہی تین ججز فیصلہ دیتے ہیں۔ تینوں ججز پر مختلف الزامات ہیں، ان کے اوپر ریفرنس بھی دائر ہو چکے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، کیا یہ آئین کے محافظ ہیں؟
نہوں نے کہا کہ الیکشن پرسو موٹو لے کر چار تین کا فیصلہ دو تین میں تبدیل کر دیا گیا۔ اگر ان ججز نے سیاست ہی کرنی ہے تو پھر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کرنے دیئے جائیں۔ فل کورٹ کا مطالبہ کوئی ناجائز مطالبہ نہیں تھا لیکن فل کورٹ اس لیے نہیں بنایا کہ انہیں معلوم تھا اکثریتی فیصلہ آئین کے مطابق ہمارے حق میں آ جانا تھا۔ اقلیتی فیصلہ نہ ماننے پر کون سی توہین ہو گی؟ عدلیہ میں سب سے بڑی توہین تب ہوئی جب فواد چودھری نے آڈیو لیک میں کہا کہ ٹرک باہر کھڑا ہے، عدلیہ کو خود احتسابی کا عمل کرنا ہو گا، عدلیہ کی عزت عدلیہ کے آئینی فیصلوں سے ہوتی ہے، جب آئین کے مطابق شفاف فیصلے ہوں گے تو توہین نہیں ہو گی بلکہ عدلیہ کا وقار بڑھے گا۔
مریم نواز شریف نے الیکشن کی بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کہتا ہے الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، ہم بھی کہتے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوں گے لیکن وقت سے پہلے نہیں ہوں گے۔ ایک شخص کے کہنے پر کچھ بھی نہیں ہو گا، کر لو جو کرنا ہے۔اس کی سیاست اب ختم ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ نواز انتخابات کی پوری تیاری کرے گی اور انتخابات اپنے وقت پر ہی منعقد ہوں گے۔