جسٹس اطہر من اللّٰہ کے 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، سیاسی معاملات کے متعلق ازخود نوٹس میں احتیاط برتنی چاہیے، عدالت سے رجوع کرنے والی سیاسی جماعت کی نیک نیتی یا بدنیتی کو بھی پرکھنا چاہیے۔ سیاستدان مناسب فورمز کے بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہارتے یا جیتتے ہیں لیکن عدالت بہرصورت ہار جاتی ہے، سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر صرف آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔
نوٹ کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے متعلقہ ہائیکورٹس سے رجوع کیا گیا، دونوں صوبوں کے ہائیکورٹس میں کیسز زیرِ التواء تھے مگر اس کے باوجود سوموٹو لیا گیا جس کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔ معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ سیاسی رسہ کشی سے عوامی مفادات اور معاشی حالات متاثر ہو رہے ہیں۔
تفصیلی نوٹ میں سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی غیر آئینی رولنگ کا بھی حوالہ دیا گیا اور لکھا گیا کہ عمران خان نے تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپوزیشن میں بیٹھنے کی بجائے استعفوں کا اعلان کیا۔ تحریکِ انصاف کے استعفوں کی وجہ سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ تحریکِ انصاف نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے دور رس نتائج مرتب ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے لکھا کہ عدالتوں کی طرف سے غیر جمہوری قوتوں کی توثیق سے ملک اور عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ سیاسی ماحول بہت زہریلا ہو چکا ہے۔ سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر آئینی کردار ادا کرنے کے بجائے استعفے دیئے گئے، کیا صوبائی اسمبلیوں کی اس طرح تحلیل آئین کی خلاف ورزی نہیں؟
یاد رہےکہ سپریم کورٹ میں 23 فروری کو ہونے والی از خود نوٹس کیس کی سماعت میں جسٹس اطہر من اللّٰہ بینچ سے علیحدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے ایک نوٹ بھی تحریر کیا تھا جو اب تفصیلی طور پر جاری کر دیا گیا ہے۔