چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین میں اقلیتوں کے حقوق پر منعقد کی گئی کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔
جسٹس الوین رابرٹ كورنيليس کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جسٹس كورنيليس 1960 سے 1968 تک چیف جسٹس رہے، ریٹائر ہوئے تو کوئی اثاثے نہیں تھے، ججز کو انصاف کرنا ہے تو جسٹس كورنيليس جیسے اوصاف چاہئیں، جسٹس كورنيليس نے گورنر جنرل کی اسمبلی کو توڑنا غیر قانونی قرار دیا تھا۔ جب 1964 میں دو صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تو مولانا مودودی کیس میں پابندی کو ہٹا دیا گیا، جسٹس كورنيليس نے اس کو بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ قرار دے کر کہا کہ ایگزیکٹو آفیسر بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں 90 روز کے اندر الیکشن کی پابندی ہے تو اس پر عملدرآمد کروانا ہماری ڈیوٹی ہے آئین کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اداروں کو احساس ہے کہ آئین پر عملدرآمد کرنا چاہیے اور اسی لیے سیاسی قیادت نے مذاکرات بھی شروع کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو فیصلہ چیلنج نہیں ہو سکتا وہ حتمی ہوتا ہے، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کر سکتیں مگر عدالتی فیصلہ کی ایک اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے متعلق کیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں اس کو تنازع نہیں سمجھتا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کر رہی ہیں، ہم ان کی سپورٹ کیلئے موجود ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہمارا فیصلہ موجود ہے۔ آئین کے مطابق چلنے کی ضرورت ہے لہذا کوئی بہانہ تلاش نہ کیا جائے۔