اسلام آباد—وزیراعظم شہباز شریف کے معاونِ خصوصی برائے اسٹیبلشمنٹ احد چیمہ نے ایک نجی نیوز چینل پر سینیئر جرنلسٹ سید طلعت حسین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھے مسلم لیگ نواز کے خلاف کرپشن کا بیانیہ بنانے کے مقصد کے تحت گرفتار کیا گیا اور دباؤ ڈالا گیا کہ میں شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جاؤں۔
سابق بیوروکریٹ احد چیمہ کا کہنا تھا کہ 2018 میں تحریکِ انصاف نے کرپشن کو اپنا بیانیہ بنایا اور اس کی کوشش تھی کہ مسلم لیگ نواز کے ترقیاتی منصوبوں کو غلط انداز میں پیش کرے کہ وہ سب داغدار تھے، اس کیلئے میں بھی ان کا ایک ٹارگٹ تھا کیونکہ میں شہباز شریف صاحب کے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس میں شامل رہا، مجھے گرفتار کیا گیا تاکہ کرپشن کے حوالہ سے بیانیہ بنایا جائے اور پھر ایک سال تک مسلسل اخبارات میں میرے خلاف تمام جھوٹے الزامات شائع کیے جاتے رہے۔
احد چیمہ نے کہا کہ مجھ پر دباؤ تھا کہ شہباز شریف صاحب کے خلاف کوئی بیان دوں، ابتدائی طور پر مجھے لگا کہ شاید نیب کو واقعی ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف نے کوئی کرپشن کی ہے اور میں اس کام میں ان کا فرنٹ مین تھا جو کک بیکس لے کر انہیں پہنچاتا رہا مگر پھر نیب حکام نے خود بتایا کہ یہ ہماری مجبوری ہے اور ہمارے اوپر بہت پریشر ہے لہذا آپ شہباز شریف کے خلاف کوئی بیان دے کر گھر چلے جائیں، مجھے کہا گیا کہ اگر آپ شہباز شریف کے خلاف بیان دیں گے تو آپ کو گھر بھیج دیا جائے گا، آپ کی پوسٹنگز جاری رہیں گی اور آپ کی پروموشن بھی ہو گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مجھ سے سوالات پوچھنے والوں میں نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر، اہڈیشنل ڈائریکٹر، ڈی جی اور پھر خود چیئرمین نیب بھی شامل تھے، چیئرمین نیب جاوید اقبال 19 مارچ 2019 کو میرے سیل میں آئے، ڈی جی ان کے ساتھ تھے، چیئرمین نیب نے میرے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ مجھے معلوم ہے آپ اچھی فیملی سے ہیں، یہ کیس مس انڈرسٹینڈنگ پر مبنی ہے، اگر آپ ہماری بات مان لیں تو آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم آپ کو کتنا سپورٹ کریں گے۔
احد چیمہ نے میزبان جرنلسٹ طلعت حسین کو بتایا کہ میں نے کئی بار سوچا کہ ان کی بات مان لوں مگر یہ اصولاً اور اخلاقی طور پر بھی ٹھیک نہیں تھا، اگر میں ایسا کوئی بیان دیتا تو یہ صریحاً جھوٹ ہوتا، اگر واقعی کوئی چیز ہوتی اور میں اس کو چھپاتا تو میرے اندر ضرور یہ اخلاقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کو چھپانا چاہیے یا نہیں مگر جب کوئی چیز تھی ہی نہیں اور مجھے کہا جا رہا تھا کہ میں خود سے کچھ گھڑ دوں اور اس کا جھوٹا الزام شہباز شریف پر عائد کر دوں تو یہ مجھ سے نہیں ہو سکا۔
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی کا کہنا تھا کہ جب میں جیل میں تھا تو ہم نے بچوں سے یہ بات چھپائے رکھی اور انہیں یہی کہا کہ میری اسلام آباد پوسٹنگ ہو گئی ہے، تب ان کی عمریں 2 اور 4 برس تھیں، انہیں جیل میں مجھ سے ملنے لایا جاتا تھا تو یہی کہا جاتا تھا کہ یہ آفس ہے اور میں یہاں وزٹ کرنے آیا ہوں مگر آہستہ آہستہ انہیں اندازہ ہوا کہ کوئی تو مسئلہ ہے لیکن اس کا ذکر نہیں کرنا، میں جیل سے واپس گھر گیا تو ان کی عمریں 5 اور 7 برس ہو چکی تھیں۔
احد چیمہ نے کہا کہ مجھے میری تمام فیملی نے بہت سپورٹ کیا، مجھ پر اس قدر گھٹیا الزامات لگائے جاتے تھے کہ مجھے خیال آتا تھا کہ میری اہلیہ چونکہ بڑی اصول پسند ہیں تو شاید وہ مجھے ملنے بھی نہ آئیں لیکن وہ چٹان کی طرح میرے ساتھ کھڑی رہیں، ایک بار وہ مجھ سے ملاقات کیلئے آئیں تو انہیں بھی تین چار گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا اور کئی سوالات پوچھے گئے، ایک دفعہ میری بہن اور بہنوئی کو بھی بلایا گیا اور سارا دن حراست میں رکھا گیا، مجھے کہا گیا کہ ہم انہیں گرفتار کر لیں گے، وہ میرے لیے مشکل ترین وقت تھا، میری بہن سے کہا گیا کہ آپ احد کو سمجھائیں، میری بہن نے کہا کہ مجھے اس کے پاس لے جائیں تاکہ میں احد سے کہوں کہ ان کی بات کبھی نہیں ماننا، میرے خاندان کے کئی لوگوں کی جائیدادیں اج تک فریز ہیں اور ان کے بینک اکاؤنٹس بھی بند کر دیئے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ دورانِ حراست مجھے تنہائی میں رکھا گیا اور میں کسی سے بات چیت نہیں کر سکتا تھا، میرا سیل بہت چھوٹا تھا، ابتدا میں جب باہر بہت احتجاج ہو رہے تھے تو مجھے ایک چارپائی اور کرسی دی گئی مگر پھر جب ثاقب نثار نے سوموٹو لے کر کہا کہ جس نے احتجاج کرنا ہے وہ مستعفی ہو جائے اور جب ان لوگوں نے مزاحمت پر قابو پا لیا تو پھر چارپائی اور کرسی لے کر زمین پر ایک چٹائی بچھا دی گئی، میرا کھانا گھر سے آتا تھا مگر اس پر بھی پابندیاں لاگو تھیں یعنی اگر ایک روٹی اور سالن ہے تو ساتھ سلاد کی اجازت نہ تھی، شروع میں کتابیں پڑھنے کی اجازت تھی مگر پھر وہ واپس لے لی گئیں اور بعد میں پھر کچھ دنوں کیلئے دے دی گئیں۔
سابق بیوروکریٹ نے بتایا کہ مجھے ٹارچر کرنے کیلئے واش روم کے ساتھ والا سیل دیا گیا جہاں کوڑے دان بھی پڑا تھا جس سے کیڑے وغیرہ آتے رہتے تھے، دن بھر بدبو آتی تھی، پنکھا بند کر دیا جاتا تھا، کھڑا رہنے کا کہا جاتا تھا، پندرہ پندرہ دنوں تک شیو کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، میرا ایک کولیگ ڈی جی نیب سے ملنے گیا تو وہاں میرے سیل کی سی سی ٹی وی مانیٹرنگ کیلئے نصب سکرین پر میری ویڈیو دیکھتا رہا، مجھے اس نے کہا کہ تم اس چھوٹے سے سیل کے اندر جس طرح واک کر رہے تھے، یہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کہیں نہیں جائے گا۔
احد چیمہ کا کہنا تھا کہ مجھے پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا اور نیب کی جانب سے جج کے سامنے رشوت سمیت سنگین الزامات لگائے گئے تو ان کو سننا بہت تکلیف دہ مرحلہ تھا اور وہ الزامات سن کر مجھے خیال آیا کہ کاش میرا وجود ہی نہ ہوتا، اسی طرح جب گھر سے میڈیسن آتی تھی اور اس پر “ملزم احد چیمہ” لکھا ہوتا تھا تو ایک دفعہ دھچکا لگتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ سب کچھ نارمل لگنے لگا، چیئرمین نیب قانون کے مطابق آزادانہ کام کرنے کی بجائے صرف طاقتور عناصر کے ایک ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔
سید طلعت حسین کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان مظالم کی اصل ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے، مجھے لگتا تھا کہ جب یہ معاملات عدالت میں جائیں گے تو میں بری ہو جاؤں گا کیونکہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا مگر نیب حکام مجھے کہا کرتے تھے کہ دو سال تک میری ضمانت نہیں ہو گی اور دو سال تک میں گھر نہیں جا سکوں گا، مجھے حیرت ہوتی تھی مگر وہ ٹھیک کہتے تھے کیونکہ سوا تین سال تک میری ضمانت نہیں ہو سکی، مجھے شکوہ صرف عدلیہ سے ہے کیونکہ جب ریاست کسی کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک کرتی ہے تو عدلیہ مظلوم کی حفاظت کرتی ہے کیونکہ عدلیہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، ہائی کورٹ میں 13 ماہ تک میری ضمانت کے معاملہ پر سماعت ہی نہ ہو سکی۔
ملک ریاض کے متعلق بات کرتے ہوئے احد چیمہ کا کہنا تھا کہ ملک ریاض ایک ریگولیٹر کے طور پر ہم سے خوش نہیں تھے کیونکہ ان کی سکیمز غیر قانونی تھیں، جب ہم نے ان کی غیر قانونی سکیمز کے متعلق اشتہارات شائع کرنے کی کوشش کی تو کسی بھی اخبار نے ہمارا اشتہار شائع نہیں کیا۔ میں نے ایل ڈی اے میں کچھ نئی چیزیں کرنے کی کوشش کی تو مجھے ایک خاموش مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ 1999 اور 2000 میں بیوروکریٹس کے ساتھ نیب کے ذریعہ جو کچھ کیا گیا وہ انہیں ابھی تک یاد ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ 2017 سے 2021 تک پاکستان میں سول سرونٹس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ شاید 1999 والے مظالم سے ایک ہزار یا دو ہزار گنا زیادہ تھا، اس دوران میں نے ایسا کوئی سول سرونٹ نہیں دیکھا جس نے خود یا اس کے کسی قریبی ساتھی نے نیب کی پیشیاں نہ بھگتی ہوں۔
احد چیمہ نے کہا کہ میں نے اپنا حساب کتاب اللّٰه تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ اللّٰه تعالیٰ کا اپنا ایک نظام ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک ایک کر کے ان سب کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ہمیں کچھ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، آج کل ان کا کوئی نام بھی لینے کو تیار نہیں ہے، ان کا حساب کتاب یہاں بھی ہونا ہے اور آخرت میں بھی ہونا ہے۔
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی کے طور پر کام کرنے کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل کو حل کرنے اور نظام کو بہتر کرنے کیلئے سیاست ہی ڈومین ہے اور اسی لیے میں یہاں ہوں کیونکہ میں نظام میں بہتری لانے کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہوں، میں نہیں جانتا کہ کیا اور کتنا کر سکوں گا مگر میری کوشش یہی ہے کہ میں اپنے ملک کیلئے کچھ کر سکوں۔