نیویارک/لاہور—تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک امریکی نجی نیوز چینل پر برطانوی اور امریکی شہریت کے حامللالال جرنلسٹ مہدی رضا حسن کو انٹرویو دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ میرے دورِ حکومت میں میڈیا آزاد تھا اور کسی بھی نیوز چینل پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی جبکہ آج میڈیا پر میرا نام نہیں لیا جا سکتا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ پرویز مشرف کا مارشل لاء ختم ہونے کے بعد پاکستان میں دو حکومتوں نے اپنی پانچ پانچ برس کی مدت پوری کی اور ہم جمہوریت کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن اب پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوریت نہیں ہے، مجھ پر دو قاتلانہ حملے کروائے گئے، میرے خلاف 170 سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں، پاکستان میں کوئی قانون کی حکمرانی نہیں ہے جبکہ ہم اندھیرے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے 6 مارچ 2022 کو واشنگٹن میں تعینات ہمارے سفیر کی جانب سے ایک سائفر ملا جس کے مطابق ایک آفیشل میٹنگ میں ہمارے سفیر کو دھمکی دی گئی کہ اگر عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ نہ نکالا گیا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے اور پھر اگلے ہی دن تحریکِ عدم اعتماد آ گئی اور مجھے نکال دیا گیا، امریکہ کو ہمارے لیے کچھ کرنا چاہیے کیونکہ یہ صرف میرا مسئلہ نہیں ہے بلکہ 250 ملین افراد کا مسئلہ ہے اور پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ ہے۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد 37 ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 30 میری جماعت نے جیتے حالانکہ پی ڈی ایم کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل تھی اور یہ لوگ اسی لیے خوفزدہ ہیں، 9 مئی کو مجھے یوں گرفتار کیا گیا جیسے میں کوئی دہشتگرد ہوں، میری گرفتاری پر احتجاج کیا گیا تو جلاؤ گھیراؤ کے چند واقعات کو بنیاد بنا کر میری جماعت کے لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، پاکستان میں اس سے پہلے کبھی بھی خواتین کو جیل میں نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی کبھی میڈیا پر پابندی لگائی گئی۔
عمران خان نے فوج کے ساتھ تعلقات کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں فوج نے بلاواسطہ یا بالواسطہ 70 برس تک حکمرانی کی ہے، جو بھی سیاست میں آتا ہے اس کو فوج کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے، میں 2018 میں فوج کی پولیٹیکل انجینئرنگ سے اقتدار میں نہیں آیا بلکہ فوج نے میری مخالفت کی تھی جبکہ 2013 میں انہوں نے نواز شریف کی مدد کی تھی، میں نے فوج کے ساتھ مل کر کام کیا مگر جب میں نے طاقتور سیاسی مافیاز کو قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کی تو مسائل شروع ہو گئے کیونکہ آرمی چیف کو کرپشن کوئی جرم نہیں لگتا تھا جبکہ آرمی چیف کے پاس ویٹو پاور تھی۔
میزبان جرنلسٹ نے سوال پوچھا کہ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کے اپنے دورِ حکومت میں آپ فوج کے ساتھ تھے، آپ نے اپوزیشن لیڈرز کو جیلوں میں ڈالا، آپ نے صحافیوں کو قید کروایا، آپ نے میڈیا پر پابندیاں لگائیں لیکن اب وہی سب کچھ آپ کے ساتھ ہو رہا ہے تو آپ پریشان ہو رہے ہیں؟
عمران خان نے جواب دیا کہ جو کچھ آج ہو رہا اس کا آپ میرے دور کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے، حتیٰ کہ پرویز مشرف کے مارشل لاء میں بھی ایسا نہیں ہوا جو کچھ آج ہو رہا ہے، میرے دور میں کسی صحافی نے ملک نہیں چھوڑا اور کسی بھی چینل کو بند نہیں کیا گیا جبکہ موجودہ دورِ حکومت میں ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا اور وہ کینیا میں قتل ہو گیا۔
میزبان جرنلسٹ مہدی رضا حسن نے کہا کہ 2021 میں ”رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز“ نے آپ کے دورِ حکومت میں آپ کو ”آزادیِ صحافت کا شکاری“ قرار دیا، انہوں نے صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے، اغواء کرنے اور ٹارچر کرنے پر آپ کو تنقید کا نشانہ بنایا، ایک نامور صحافی حامد میر کو آپ کے دورِ حکومت میں آن ائیر نہیں ہونے دیا گیا، آپ کے دورِ حکومت میں بہت کچھ غلط ہوا، آپ خود کو آزادیِ صحافت کا چیمپئن نہیں کہہ سکتے۔
عمران خان نے جواب دیا کہ میرے دور میں صرف ایک مرتبہ مجھے کسی صحافی کے اغواء ہونے کا پتہ چلا اور وہ مطیع اللّٰہ جان تھا، میں نے اس کو اگلے دن ہی بازیاب کروا لیا، میرے دور میں صحافیوں کے اغواء کی ذمہ دار ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے۔
ایک موقع پر عمران خان نے کہا کہ آج میرا نام میڈیا پر نہیں لیا جا سکتا۔
اس پر میزبان جرنلسٹ نے کہا کہ جب آپ وزیراعظم تھے تو سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی میڈیا پر نہیں لینے دیا جاتا تھا۔
عمران خان نے جواب دیا کہ نواز شریف ملک سے باہر جا کر لوگوں کو لیکچر دے رہے تھے اس لیے ان پر پابندی لگائی گئی۔