spot_img

Columns

Columns

News

From ‘Radical Left’ to Oval office partner: Trump warms to Mamdani

In a sharp turn from the campaign trail, Donald Trump and Zohran Mamdani used their first Oval Office meeting to talk about rent, food prices and the affordability crunch in New York rather than rehearse their bitter political feud. The encounter hinted at an uneasy partnership built on shared pressure from struggling New Yorkers.

Indian Tejas fighter jet crashes during Dubai Airshow 2025 display

An Indian Air Force Tejas light combat jet crashed during an aerial display at Dubai Airshow 2025, forcing organisers to suspend flying and putting fresh scrutiny on India’s homegrown fighter aircraft programme.

بھارتی فضائیہ کا جنگی طیارہ ’’تیجس‘‘ دوبئی ائیر شو کے دوران گِر کر تباہ ہو گیا

ھارتی فضائیہ کا جنگی طیارہ ’’تیجس‘‘ دوبئی ائیر شو 2025 کے دوران گِر کر تباہ ہو گیا جبکہ حادثہ میں پائلٹ کے ہلاک ہونے کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ حادثہ کے باعث دوبئی ائیر شو کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔

امریکی اراکین کانگریس کا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو خط، بھٹہ انڈسٹری کی جدت کی تعریف

امریکی کانگریس کے اراکین نے وزیراعلیٰ مریم نواز کو ایک اہم خط میں پنجاب کی بھٹہ انڈسٹری کی جدت کو سراہتے ہوئے اسے جبری مشقت کے خاتمے، ماحولیاتی بہتری اور پاک امریکا اقتصادی تعاون کیلئے اہم قرار دیا ہے۔

ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال کر رہی ہے، ڈنمارک

ٹی ٹی پی (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال کر رہی ہے جبکہ اسے افغان عبوری حکومت کی لاجسٹک اور مالی معاونت حاصل ہے، یہ گروہ خطہ کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔
Opinionدادا دادی اکیلے رہ گئے
spot_img

دادا دادی اکیلے رہ گئے

یہ ماحول دادا دادی کے بڑھاپے میں ان کا سہارا ہوا کرتا تھا، وہ پوتے پوتیوں کے ساتھ مصروف رہتے تھے اور یوں انہیں غیر ضروری ہونے یا تنہا ہونے یا بےوقعت ہو جانے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہم سب نے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ جس میں زندگی موت سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔

A.M. Farooqi
A.M. Farooqi
A.M. Farooqi is a Staff Reporter for The Thursday Times.
spot_img

بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب بچے دادا دادی کے ساتھ بہت زیادہ مانوس ہوا کرتے تھے۔ دادا دادی کے ساتھ وقت گزارنا، پیاری اور معصوم سی باتیں کرتے رہنا، ہنسی مذاق کرنا، ان کے ساتھ کھانا کھانا اور انھی کے پاس بیٹھ کر پڑھائی کرنا بچوں کو بہت پسند ہوا کرتا تھا بلکہ عموماً ایک بچہ ایسا بھی ہوتا تھا جو دادا یا دادی کے پاس ہی سو جایا کرتا تھا۔

یہ ماحول دادا دادی کے بڑھاپے میں ان کا سہارا ہوا کرتا تھا، وہ پوتے پوتیوں کے ساتھ مصروف رہتے تھے اور یوں انہیں غیر ضروری ہونے یا تنہا ہونے یا بےوقعت ہو جانے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ سب سے پیارا تو وہ بچہ ہوا کرتا تھا جو دادا یا دادی کے پاس ہی ان کے بچپن اور جوانی کی باتیں اور قصے سنتے سنتے سو جایا کرتا تھا۔

مگر جدید تعلیمی نظام اور اس میں مقابلے کی فضا، موبائل فونز و کمپیوٹرز، پلے سٹیشنز و دیگر الیکٹرونک گیمز، جدید فیشن کی خواہش، رومانوی ڈراموں کے اثرات اور دیگر وجوہات نے بچوں کو دادا دادی سے کوسوں دور کر دیا بلکہ اب تو انہیں دادا دادی کے پاس کچھ دیر کیلئے بیٹھنے میں بھی بیزاری محسوس ہوتی ہے۔

اب تو دادا دادی اکیلے رہ گئے ہیں، بیٹے روزگار کی فکر اور بیوی بچوں کا خیال رکھنے میں مصروف ہو گئے، بیٹیاں بیاہ کر اپنے گھروں کی ہو گئیں جبکہ پوتے پوتیاں ڈاکٹر اور انجینئر بننے کیلئے محنت کرنے، ڈرامے اور فلمیں دیکھنے، خفیہ دوستیاں نبھانے، فیشن کرنے اور ایسے دیگر کاموں میں رشتوں کے تقدس سے ہی انجان ہو گئے۔

ایسے گھر کم ہی رہ گئے ہیں جہاں دادا دادی کو پوتے پوتیوں کی قربت نصیب ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان گھروں کی تعداد میں مزید کمی ہو رہی ہے۔ کئی گھروں میں تو دادا دادی کو پانی پینے کیلئے بھی طویل انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کوئی بیٹا پاس سے گزرے یا کوئی بہو کسی بہانے سامنے آئے یا کوئی پوتا پوتی کہیں نظر آئیں تو ان سے پانی پلانے کا مطالبہ کیا جائے جبکہ اس دوران یہ خوف بھی رہتا ہے کہ کہیں پانی مانگنے پر ڈانٹ ہی نہ کھانی پڑ جائے۔

ماحول میں اس افسوسناک تبدیلی کیلئے سازشی کہانیوں پر مبنی ڈرامہ سیریلز اور موویز نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ان ڈرامہ سیریلز اور موویز نے اکثر لڑکیوں کی ایسی ذہن سازی کر دی ہے کہ ان کے اندر شوہر کے ہمراہ کہیں اکیلے رہنے یعنی سسرال سے الگ رہنے کی خواہش ہر وقت بیدار رہتی ہے، وہ ہمیشہ اس موقع کی تلاش میں رہتی ہیں کہ جہاں سے الگ ہونے کی بات چل نکلے اور پھر ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ ان کے بچے دادا دادی اور چچا کی بجائے نانا نانی اور ماموں کے زیادہ قریب ہوں۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب گھروں میں ان باتوں کو موضوع ہی نہیں بنایا جا سکتا، اگر کوئی شخص کسی موقع پر ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ کہہ بھی دے تو فوراً اس پر یہ الزام عائد کر دیا جاتا ہے کہ وہ تو بچوں کو مستقبل میں کامیاب دیکھنا ہی نہیں چاہتا، اس کی نظر تو فلاں چیز پر ہے اور یہ خود کیوں نہیں ایسا یا ویسا کر لیتا وغیرہ وغیرہ

ہم سب نے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ جس میں زندگی موت سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ آج ہم اپنے روزگار اور بیوی بچوں میں مگن ہو کر اپنے ماں باپ کو بےوقعت اور تنہا کر رہے ہیں، کل ہم بوڑھے ہو کر اسی طرح اپنے بچوں کے ہوتے ہوئے بےوقعت اور تنہا ہوں گے اور پھر ایک وقت آئے گا کہ ہمارے بچے بھی بوڑھے ہو کر بےوقعت اور تنہا رہ جائیں گے جبکہ ان کے بچے روشن مستقبل کی تلاش اور دیگر تفریحی سرگرمیوں میں مصروف ہوں گے۔

دراصل اس ماحول نے زندگی کو جوانی کے اختتام تک ہی محدود کر دیا ہے، یہاں ہم جوانی کے اختتام کو پہنچیں گے اور وہاں ہمیں گھر کے کسی کونے میں چارپائی یا بیڈ دے دیا جائے گا اور پھر ہم بچپن اور جوانی کے دنوں کو یاد کرتے اور کڑھتے ہوئے موت کا انتظار کرتے رہیں گے اور پھر یہی وقت ہمارے بچے بھی دیکھیں گے اور یوں زندگی سکڑتی چلی جائے گی۔

LEAVE A COMMENT

Please enter your comment!
Please enter your name here
This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.

The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: