اسلام آباد—سپریم کورٹ آف پاکستان میں ”سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023“ کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دوسری بار فل کورٹ سماعت جاری ہے جس کو سرکاری ٹیلی ویژن سے براہِ راست نشر کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ “پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس” آج ہی انجام تک پہنچ جائے کیونکہ سپریم کورٹ کے سامنے صرف یہ ایک ہی کیس نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ مقدمات ہیں، صرف اسی کیس کو لے کر بیٹھ جائیں گے تو بقیہ مقدمات کا کیا بنے گا۔
ایک موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب مارشل لاء لگتے ہیں تو تب سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، اس وقت سب حلف کو بھول جاتے ہیں، یہاں اس کمرے میں کتنی ہی ایسے لوگوں تصاویر آویزاں ہیں جو اپنا حلف بھول گئے لیکن جب پارلیمنٹ کچھ کرے تو اس میں مین میخیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں، جب مارشل لاء لگتے ہیں تو اس پر بھی پٹیشن لایا کریں اور کہا کریں کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے آئین آتا ہے، پھر قانون آتا ہے اور پھر فیصلے آتے ہیں، اگر سپریم کورٹ قانون بناتا ہے تو یہ غلط ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ اس کی تشریح کرنا ہے۔ میں ماضی کے فیصلوں کے تابع نہیں ہوں، میں نے آئین اور قانون کو برقرار رکھنے کا حلف لیا ہوا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت بطور چیف جسٹس میری پاور کم ہو رہی ہے اور سپریم کورٹ کی طاقت بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ سپریم کورٹ جو چاہے وہ کر سکتی ہے، یہاں پر ایسا بھی کہا گیا کہ آئین کو روند دیں اور بدل دیں، اس کا مطلب ہے کہ جو چیف جسٹس آئے گا اس وقت کا بینچ جو فیصلہ کرے گا وہی لاگو ہو گا تو پھر آئین کی تو کوئی حیثیت ہی نہ رہی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر انصاف تک رسائی کا حق پارلیمنٹ نے دینا ہو تو کیا پارلیمنٹ اس پر قانون سازی نہیں کرسکتی؟ یعنی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ انصاف تک رسائی کیلئے پارلیمنٹ کو آئین میں تبدیلی کرنا پڑے گی؟
سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس نے ایک درخواست گزار مدثر حسن کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار بھی کیا، چیف جسٹس نے درخواست گزار مدثر حسن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر آپ پیش نہیں ہوئے جبکہ آج پٹیشنر موجود نہیں ہے، کیا آپ کے نذدیک اس کیس کی یہی اہمیت ہے؟
ایک درخواست گزار کے وکیل چوہدری اکرم نے کسی اخبار کا آرٹیکل پڑھنا شروع کیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو سنیں گے لیکن ایسے کھوکھلے دلائل نہیں سن سکتے کہ اخبارات کیا کہتے ہیں، آپ اپنی بات کریں اور اپنے کیس پر دلائل کے ساتھ بات کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ایک موقع پر وکیل چوہدری اکرم کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پٹیشن میں ایسی کوئی بات نہیں کہ پارلیمنٹ کی قانون بنانے کی اہلیت نہیں ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ پارلیمنٹ کی اہلیت کو تسلیم کر رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایکٹ آئین کی رو کیلے خلاف ہے تو آپ بس یہ بتا دیں کہ یہ قانون آئین کی کس شق کے خلاف ہے؟