اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج ”ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس“ پر 12 برس بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی جو براہِ راست نشر کی گئی۔
سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں جبکہ سماعت کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اِس بینچ کی تشکیل ججز کمیٹی کے ذریعہ کی گئی، ایک سینیئر جج نے بینچ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور دو دیگر ججز نے کسی وجہ سے بینچ کا حصہ بننا مناسب نہیں سمجھا، “ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس” اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے دائر کیا تھا اور ان کے بعد دو صدور آئے لیکن کسی نے اس کو واپس نہیں لیا، مجھے افسوس ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اِس ریفرنس کو پہلے مقرر نہیں کیا گیا حالانکہ پالیسی یہی ہے کہ جو کیس پہلے آئے اُس کو پہلے سنا جائے مگر یہ ریفرنس 11 سالوں تک مقرر نہیں کیا گیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کے روبرو دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار بھٹو نے کہا تھا کہ ان کے خلاف کی گئی تنقید اور کیس واضح طور پر تعصب پر مبنی ہے، سماعت کے دوران احمد رضا قصوری بھی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے صحافی افتخار احمد کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ ذوالفقار بھٹو کو دی گئی پھانسی عدالتی قتل تھا، ایک اور انٹرویو میں یہ کہا گیا تھا کہ جب مارشل لاء لگتا ہے تو مارشل لاء والوں کی بات ماننا پڑتی ہے۔
بینچ میں شامل تین ججز نے اٹارنی جنرل کے دلائل کے جواب میں ریمارکس دیئے کہ پورا ریفرنس سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر مبنی ہے اور ساتھ یہ بھی مدِنظر رکھا جائے کہ تین ججز نے اختلاف بھی کیا تھا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی مارشل لاء میں عدلیہ آزاد نہیں ہوتی اور اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت بھی پیش کرنا ہو گا۔
سپریم کورٹ نے اِس کیس کی سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کیس میں 9 عدالتی معاون مقرر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دینے کا ریفرنس 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے ذریعہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کیا گیا تھا جس کی سماعت کیلئے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ کے تحت اِس صدارتی ریفرنس پر 3 جنوری 2012 سے 12 نومبر 2012 تک 6 سماعتیں ہوئیں تاہم کوئی فیصلہ نہ سنایا گیا جبکہ 11 برس بعد اب اِس ریفرنس پر دوبارہ سماعت کی جا رہی ہے۔